اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

جرمنی کی “جاسوس لال بیگوں” میں سرمایہ کاری: مستقبل کی جنگ کی تیاری

cockroach

جرمنی کی “جاسوس لال بیگوں” میں سرمایہ کاری: مستقبل کی جنگ کی تیاری

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی نے عسکری میدان میں تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہتھیاروں، روبوٹس اور یہاں تک کہ جاسوس لال بیگ جیسے منصوبوں پر بھاری سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق، جرمنی کے چانسلر فریڈرک مرز نے اعلان کیا ہے کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو 2029 تک 153 ارب یورو تک بڑھایا جائے گا، جو کہ اس سال کے 86 ارب یورو کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہے۔ انہوں نے نیٹو کے نئے فریم ورک کے تحت جی ڈی پی کا 3.5 فیصد دفاع پر خرچ کرنے کا عندیہ دیا ہے، جسے وہ روس سے درپیش خطرے کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری قرار دیتے ہیں۔

چانسلر مرز کی حکومت کا ماننا ہے کہ دفاعی میدان میں مصنوعی ذہانت اور نئی نئی ابھرتی ہوئی کمپنیاں (اسٹارٹ اپس) انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اسی تناظر میں وفاقی کابینہ نے ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت دفاعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی بنانے والی اسٹارٹ اپ کمپنیوں کیلئے خریداری کے پیچیدہ مراحل کو آسان بنایا جائے گا۔ اس قانون کا مقصد ان کمپنیوں کو جرمن فوج کی جدید کاری میں فوری شمولیت کے قابل بنانا ہے۔

جرمنی کی معروف کمپنی ہلسنگ، جو ڈرونز اور مصنوعی ذہانت میں مہارت رکھتی ہے، کے علاوہ پرانے دفاعی ادارے جیسے رائن میٹل اور ہینسولٹ بھی اس جدید منصوبے میں شریک ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے جرمنی روبوٹس، بغیر پائلٹ آبدوزیں اور یہاں تک کہ لال بیگ جیسے چھوٹے مگر موثر جاسوس آلات تیار کرنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔

تاہم جرمن حکومت کی ان پالیسیوں پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ قومی معیشت پر بوجھ ڈال سکتا ہے، جو پہلے ہی مہنگی توانائی، روس پر پابندیوں کے اثرات اور امریکہ کے ساتھ تجارتی کشیدگی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ جرمنی، امریکہ کے بعد یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے، جس پر روس کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آچکا ہے۔ ماسکو نے مغربی اسلحہ کی ترسیل کو جنگ کے طول دینے اور کشیدگی میں اضافہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ روس نے خبردار کیا ہے کہ برلن کی یہ پالیسی دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نئی مسلح کشیدگی کو جنم دے سکتی ہے۔

Share it :