خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

پاکستان- سعودی عرب تاریخی دفاعی معاہدے پر عالمی میڈیا کا ردِعمل

Shahbaz Sharif

پاکستان- سعودی عرب تاریخی دفاعی معاہدے پر عالمی میڈیا کا ردِعمل

اسلام آباد (صداۓ روس)
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں طے پانے والا سٹریٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے، اور مختلف تجزیے اس معاہدے کے پسِ منظر، مفاہمت اور ممکنہ اثرات پر پیش کیے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق یہ معاہدہ طے پایا ہے کہ اگر کسی دشمن نے پاکستان یا سعودی عرب میں سے کسی ایک پر حملہ کیا، تو وہ حملہ دونوں پر تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دفاعی تعاون اور مشترکہ مزاحمت کو فروغ دینے، فوجی اتحاد کو قابلِ اعتبار بنانے اور علاقائی چیلنجز کے پیش نظر دونوں ممالک کی سکیورٹی کو مضبوط کرنے کا عہد کرتا ہے۔ عالمی میڈیا میں یہ تجزیہ ملتا ہے کہ یہ معاہدہ محض دو طرفہ دفاعی شراکت سے آگے بڑھ کر خطے کی غیر مستحکم صورتِ حال کا ردِعمل ہے، خصوصاً مشرق وسطیٰ میں اسرائیل-قطر کشیدگی، ایران اور خلیجی ریاستوں کے مابین تناؤ، اور امریکہ کی سکیورٹی شراکت داریوں کی ممکنہ کمزوریوں کے پیشِ نظر۔ بھارت نے اس معاہدے پر محتاط ردِعمل کیا ہے، اور کہا نئی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا، خاص کر علاقائی استحکام اور قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے۔ عرب میڈیا نے اسے سعودی عرب کی دفاعی شراکت داری کو متنوع بنانے کی کوشش قرار دیا ہے، جیسا کہ امریکہ پر انحصار کم کرنے اور خطے میں اپنی دفاعی خودمختاری کو مضبوط کرنے کی سمت میں ایک قدم۔

بین الاقوامی تجزیہ کار متنبہ ہیں کہ معاہدے کی اصل تاثیر معاہدے کی تفصیلات، فوجی استعداد، اتحاد کی عملی کارکردگی اور ممکنہ جوابی ردِعمل پر منحصر ہوگی۔ کسی نے یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ اگرچہ معاہدہ رسمی طور پر طویل عرصے کے بعد آیا ہے، مگر یہ معاملہ سیاسی اشارے کے طور پر بھی اہم ہے۔ پاکستانی ذرائع (مثلاً ڈان اور سرکاری بیان) بتاتے ہیں کہ یہ معاہدہ اسلامی بھائی چارے، تاریخی دفاعی تعاون، اور مشترکہ مفادات پر مبنی ہے۔ معاہدہ اقتصادی حوالے سے بھی اہم ہے، چونکہ سعودی عرب نے طویل عرصے سے مالی امداد، تیل فراہمی اور سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان کی معاونت کی ہے، اور یہ معاہدہ ان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش ہے۔ معاہدے کی شرائط اور فوجی تعاون کی عملی نوعیت کتنی ہوگی؟ آیا یہ طے ہے کہ کون-سی ساز و سامان، مشقیں، اور فورسز کس طرح یکجا ہوں گی؟ نیوکلیئر اثاثوں اور ڈٹرنس کے حوالے سے وضاحت کم ہے—کچھ رپورٹس نے یہ ذکر کیا کہ معاہدہ میں ممکنہ طور پر نیوکلیئر دفاعی پہلو شامل ہو سکتے ہیں، مگر واضح نہیں کہ اس کا دائرہ کار کیا ہوگا۔ علاقائی ردِعمل اور توازنِ طاقت کا مسئلہ: بھارت اور ایران جیسی ریاستیں اس معاہدے کو ممکنہ چیلنج کے طور پر دیکھ رہی ہیں، اور یہ سوال کھڑا ہے کہ معاہدہ خطے میں تنازعات کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا یا کشیدگی کو مزید بڑھائے گا۔

مجموعی طور پر، عالمی میڈیا کا تجزیہ یہ ہے کہ یہ معاہدہ پاکستان-سعودی عرب تعلقات کا سب سے بڑا دفاعی ارتقاء ہے، جس نے رسمی طور پر پہلے سے موجود تعاون کو قانونی اور سیاسی بنیادوں پر تقویت دی ہے۔ مگر اس معاہدے کی اصل کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ وہ تعاون کس حد تک مؤثر، شفاف اور علاقائی مفادات کے مطابق عمل میں آئے۔

شئیر کریں: ۔