خبریں ہوں یا تجزیے — عالمی منظرنامہ، صرف "صدائے روس" پر۔

LN

اسلام آباد میں جنگلی سؤروں کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ

wild boar

اسلام آباد میں جنگلی سؤروں کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین مسئلہ

اسلام آباد (صداۓ روس)
اسلام آباد اور اس کے نواحی علاقے مارگلہ کی پہاڑیوں میں جنگلی سؤروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ جانور، جنہیں سائنسی طور پر ’’سُس سکر وفا‘‘ کہا جاتا ہے، نو سو فٹ کی بلندی تک پائے جاتے ہیں۔ ان کا دائرہ کار صرف دارالحکومت تک محدود نہیں بلکہ مری کے دامن، پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع سے لے کر دریائے سندھ کے دہانے تک پھیلا ہوا ہے۔ مادہ جنگلی سؤر کا وزن سو کلوگرام تک جبکہ نر سؤروں کا وزن اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ نر سؤروں کے تیز اور اوپر کی جانب مڑتے ہوئے دانت انہیں مزید خطرناک بنا دیتے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی وجوہات کی بنا پر ان جانوروں کا گوشت استعمال نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ان کی افزائش بے قابو ہو رہی ہے۔ خوراک کی تلاش میں یہ سؤر پہاڑوں سے نکل کر شہری علاقوں میں داخل ہوتے ہیں اور کوڑے کے ڈبوں سے لے کر اعلیٰ ہوٹلوں تک ہر جگہ خوراک تلاش کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی کئی بار صدارتی محل کے قریب بھی دیکھی گئی ہے۔ اس دوران یہ ٹریفک حادثات کا باعث بنتے ہیں جن میں انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ سیاحوں اور ہائیکنگ کے شوقین افراد پر ان کے حملے بھی رپورٹ ہو چکے ہیں، جن سے اموات اور زخمی ہونے کے واقعات پیش آتے ہیں۔

دیہی علاقوں میں یہ فصلوں کے سب سے بڑے دشمن سمجھے جاتے ہیں۔ کسانوں کے مطابق یہ سبزیوں، مکئی، کماد اور دیگر فصلوں کو برباد کر دیتے ہیں، جس سے دیہات میں بسنے والے کسانوں کو ہر سال بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ باغات اور پھل دار درختوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان جانوروں کے قدرتی دشمن پاکستان میں موجود نہیں ہیں۔ بھیڑیے اور بڑے شکاری جانور جو دیگر ممالک میں ان کی افزائش کو محدود رکھتے ہیں، یہاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک مادہ جنگلی سؤر سال میں ایک یا دو بار آٹھ بچوں کو جنم دیتی ہے۔ اس رفتار سے ان کی آبادی میں کمی ممکن نہیں، بلکہ اگر ان کی تعداد میں نوے فیصد تک کمی بھی کر دی جائے تو یہ تین برسوں میں دوبارہ اپنی اصل سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔

حکومت اور مقامی انتظامیہ کے پاس ماضی میں ان جانوروں کی آبادی قابو کرنے کے منصوبے موجود رہے ہیں۔ پنجاب میں کسانوں کو ہر مارے گئے سؤر کی دم کے عوض اسی روپے دیے جاتے تھے۔ یہ سکیم 1980 کی دہائی تک جاری رہی اور اس دوران ہر سال تقریباً بیس ہزار دمیں اکٹھی کی جاتی تھیں۔ مگر فنڈز کی کمی کے باعث یہ پروگرام بند کر دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اگر اس منصوبے کو دوبارہ شروع کیا جائے اور مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے تو کچھ بہتری ممکن ہے۔ کچھ ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ حکومت باقاعدہ شکار کے پروگرام شروع کرے جسے ’’ٹرافی ہنٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت مقامی اور غیر ملکی شکاری ان جانوروں کا شکار کر سکتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی مقامی کمیونٹیز کی بہتری پر خرچ کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی کھیتوں کے گرد مضبوط باڑ لگانا اور کوڑا کرکٹ کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانا بھی اس مسئلے کو کسی حد تک قابو میں لا سکتا ہے۔ اسلام آباد اور دیگر علاقوں میں جنگلی سؤروں کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک سنگین ماحولیاتی اور سماجی مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ نہ صرف شہریوں کے جان و مال کے لیے خطرہ ہیں بلکہ دیہاتی معیشت پر بھی شدید اثر ڈال رہے ہیں۔ اس مسئلے کا مستقل حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت منظم پالیسی اپنائے، مقامی افراد کو شامل کرے اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کرے۔

شئیر کریں: ۔