پراسرار اپلیچین پہاڑیاں — جہاں فطرت اب بھی بھوتوں کی زبان بولتی ہے
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
امریکہ کے مشرق میں پھیلی ہوئی قدیم اپلیچین پہاڑیاں آج بھی خوف، حیرت اور پراسراریت کا مرکز سمجھی جاتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان جنگلات میں بھوت، مافوق الفطرت مخلوقات اور دیومالائی جنات اب بھی بستے ہیں — جیسے “موتھ مین”، “ویمپس کیٹ”، “ریون موکر”، “گرافٹن مونسٹر” اور “فلیٹ ووڈز مونسٹر”۔ ان تمام کہانیوں نے ٹک ٹاک پر #HauntedAppalachia کے نام سے ایک نیا رجحان پیدا کر دیا ہے۔ یہ پہاڑیاں تقریباً دو ہزار میل تک پھیلی ہوئی ہیں، جو نیو فاؤنڈ لینڈ سے لے کر شمالی الاباما تک جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں پراسرار واقعات کی کثرت کی ایک بڑی وجہ ان پہاڑوں کی انتہائی قدامت ہے۔ یہ زمین کی عمر سے بھی زیادہ قدیم معلوم ہوتے ہیں — زحل (Saturn) کے حلقوں، اوزون تہہ، اور حتیٰ کہ جنسی تولید کرنے والی جانداروں سے بھی پرانے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کی محققہ سینڈرا ایچ بی کلارک کے مطابق اپلیچین پہاڑوں کی چٹانیں تقریباً 1.2 ارب سال قبل وجود میں آئیں، جب تمام براعظم ایک ہی خشکی کی شکل میں متحد تھے۔ پھر تقریباً 75 کروڑ سال پہلے زمین کے اندر موجود طاقتور حرکیاتی دباؤ کے باعث یہ عظیم براعظم آہستہ آہستہ الگ ہونے لگا۔ جب براعظموں نے مختلف سمتوں میں حرکت شروع کی، تو کیرولائنا سے لے کر جارجیا تک ایک گہرا سمندری طاس وجود میں آیا، جسے بعد میں دریاؤں کی مٹی نے بھر دیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آتش فشاں پھٹنے لگے، زلزلے آئے، اور براعظم ایک دوسرے سے ٹکرا کر بلند و بالا پہاڑیاں تشکیل دینے لگے۔ یہی وہ عمل تھا جس نے اپلیچین کو دنیا کی سب سے متنوع ماحولیاتی خطہ بنا دیا۔
ماہر ماحولیات الزبتھ اے بائرز کے مطابق اپلیچین خطے کا منفرد جغرافیہ درجہ حرارت، بارش، ڈھلوان اور زمین کی ساخت کے اعتبار سے بے شمار حیاتیاتی مسکن (niches) پیدا کرتا ہے۔ یہاں ہر جاندار اپنی مخصوص جگہ اور ماحول کے مطابق ڈھل گیا ہے۔ بائرز کے مطابق آپ ان جنگلات میں چلتے ہوئے گویا کسی اور زمانے میں داخل ہو جاتے ہیں، جہاں ہر جھاڑی، ہر درخت، اور ہر جاندار اپنی انوکھی کہانی سناتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان علاقوں میں آپ گوشت خور سنڈیو (sundew) جیسے پودے دیکھ سکتے ہیں جو اپنے چمکدار سرخ ریشوں سے شکار پھنساتے ہیں، یا اڑنے والی شمالی گلہریاں جن کے بل رات کے وقت “فالس ٹرفلز” تلاش کرنے کی نشانی ہوتے ہیں۔
ان پہاڑوں کے پراسرار ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں کے کئی علاقے آج تک انسانوں کی مداخلت سے محفوظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم حیاتیاتی تنوع بھی یہاں برقرار ہے۔ بائرز کہتی ہیں کہ ان جنگلات میں “گہرے، نم دار سرخ سپروس کے درختوں سے بھرے علاقے ہیں، جہاں سورج کی روشنی بمشکل زمین تک پہنچتی ہے، جبکہ کہیں چاندی کے رنگ کے میپل کے درختوں کے جھنڈ ہیں۔ ان جگہوں پر کھڑے ہو کر ایسا لگتا ہے جیسے زمین کی گہرائیوں سے کوئی قدیم یاد سانس لے رہی ہو — شاید وہی مخلوقات جنہیں انسان ’’بھوت‘‘ یا ’’مونسٹر‘‘ کہتا ہے۔
شمالی کیرولائنا کی ہارر ناول نگار اُرزولا ورنن، جو ’’ٹی کنگ فشر‘‘ کے قلمی نام سے لکھتی ہیں، کہتی ہیں یہ پہاڑ اس قدر قدیم ہیں کہ ان کی مٹی میں وقت جم سا گیا ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر انسان کو ان کی عمر کا بوجھ اپنے کندھوں پر محسوس ہوتا ہے۔ ان کے مطابق اپلیچین کی گھنی فضا، گہرے سایے اور خاموش وادیاں ان تمام خوفناک کہانیوں کے لیے بہترین پس منظر فراہم کرتی ہیں۔ فولکلور کے ماہر کارل لنڈاہل (یونیورسٹی آف ہیوسٹن) بتاتے ہیں کہ پُراثر فطرت ہی یہاں کی دیومالائی کہانیوں کی جڑ ہے۔
انہوں نے نوبیل انعام یافتہ محقق رابرٹ کولز کے ایک تجربے کا ذکر کیا، جس میں اپلیچین کے بچوں سے ’’گھر‘‘ کی تصویر بنانے کو کہا گیا۔ ان بچوں نے گھروں کو پہاڑوں کے دامن میں اتنا چھوٹا دکھایا کہ وہ فطرت کے سامنے بالکل بونے لگتے تھے۔ بعض نے تو صرف جنگلات اور پہاڑ ہی بنائے — گویا خود فطرت ہی ان کا گھر ہے۔