کالم و مضامین
فروری اور کشمیر کی تاریخ

فروری اور کشمیر کی تاریخ
شاہ نواز سیال
جموں و کشمیر برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست ہے جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ یہ ریاست 1947 کے بعد جموں کشمیر میں تقسیم ہو گئی۔ اِس وقت بھارت 39102 مربع میل پرجبری طور قابض ہے جو ”مقبوضہ کشمیر“ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے، بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 40 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔ ہندو راجاوں نے تقریباً 4 ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجا کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھی –
1931 کا سال ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں سیاسی اہمیت کا حامل ہے مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکومت کے خلاف سیاسی تحریکوں کا سال تصور کیا جاتا ہے۔ اپریل کے مہینے میں جمعے کے خطبے کے موقع پر امام مسجد مصر کے حکمران فرعون کے بنی اسرائیل کے ساتھ رکھے گئے ناروا سلوک کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے کہ پولیس نے انھیں خطبہ جاری رکھنے سے اس بہانے روک دیا کہ یہ موضوع عوام میں مہاراجہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ چند ہفتوں بعد جون میں جموں جیل اور اس کے چند روز بعد سرینگر میں توہین قرآن کے دو مبینہ واقعات یکے بعد دیگرے پیش آئے۔ ان دونوں مبینہ واقعات نے ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑا دی۔
محقق رشید تاثیر لکھتے ہیں کہ سرینگر میں ان واقعات کے خلاف احتجاج کی ایک زبردست لہر اٹھی۔
شمال مشرقی سرحدی صوبے کا ایک نوجوان عبدالقدیر جو ایک انگریز سیاح کے ساتھ ان دنوں سرینگر میں مقیم تھا، اچانک ایک احتجاجی مظاہرے میں نمودار ہوا اور اس نے مہاراجہ کے محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج سے کچھ حاصل نہ ہو گا، ’اس محل کو آگ لگا دو۔ اسلحہ ہمارے پاس نہیں لیکن پتھر اور اینٹیں تو ہیں‘۔
احتجاجی مظاہروں میں عوام کی بڑے پیمانے پر شرکت کا ذکر کرتے ہوئے سرینگر کے ممتاز مصنف پریم ناتھ بزار لکھتے ہیں کہ احتجاج میں بھرپور عوامی شرکت کا سبب مہاراجہ کی انتظامیہ کا شہریوں کے ساتھ کیا جانے والا بدترین سلوک تھا۔
عبدالقدیر کی تقریر ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوئی جس نے کشمیری سیاست کی جہت ہی بدل ڈالی۔
بغاوت پھیلانے کے جرم میں عبدالقدیر کو حراست میں لے لیا گیا۔ عبدالقدیر کی تقریر نے کشمیری مسلمانوں میں بیداری کی ایک ناقابل یقین لہر پیدا کی۔ سینکڑوں لوگ عبدالقدیر خان کی ایک جھلک دیکھنے عدالت کے باہر جمع ہوئے۔ 13 جولائی 1931 کو بھی قدیر کے کیس پر بحث ہو رہی تھی کہ عوام کا ایک ہجوم امنڈ آیا۔
ایک نمایاں تعداد عدالت کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئی اور ایک بہت بڑی تعداد باہر رہ گئی۔
ظہر کی نماز کے وقت پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل شروع ہوئی جو جلد ہی فائرنگ میں بدل گئی۔ اکیس افراد موقع پر ہلاک ہوگئے جنھیں اکھٹے ایک ہی جگہ دفن کر دیا گیا۔ اس قبرستان کو ’مزار شہیدا‘ کہا جاتا ہے اور ہر سال ان شہدا کی برسی لائن آف کنٹرول کے دونوں حصوں میں نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ منائی جاتی ہے۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح انڈیا اور بالخصوص پنجاب میں پھیلی۔ امرتسر، لاہور، لکھنؤ اور دہلی سمیت کئی ایک شہروں میں مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ علامہ محمد اقبال بھی اس احتجاج کی اپیل کرنے والوں میں شامل تھے۔
جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کی تحریک پر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔
علامہ اقبال بھی اس کمیٹی کے رکن تھے اور بعد میں انھیں کمیٹی کا سربراہ بھی بنا دیا گیا۔ اگرچہ ہندو پریس نے اس کمیٹی کے قیام کی سخت مخالفت کی لیکن کمیٹی نے کشمیریوں کی مدد کے لیے عطیات جمع کیے اور قابل وکلا کی خدمات بھی حاصل کیں جن میں پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ سر ظفراللہ خان بھی شامل تھے۔
سر ظفر اللہ خان نے سرینگر کی عدالتوں میں پیش ہو کر زیرحراست کشمیریوں کے مقدمات کی مفت پیروی کی۔
اگرچہ باہمی اختلافات کی وجہ سے کشمیر کمیٹی چند سال بعد غیر مؤثر ہو گئی لیکن ہر سال 14 اگست کو کشمیریوں کے اظہار یکجہتی کی روایت ڈال گئی۔
قیام پاکستان کے بعد بھی اگرچہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ اور سفارتی کوششوں کی حد تک محدود ہو گیا تھا لیکن پچاس کی دہائی میں پاکستان کے سیاستدانوں سابق وزیر اعظم چودھری محمد علی، جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلی مودودی، نواب زادہ نصراللہ خان اور چودھری غلام عباس نے مشترکہ طور پر کشمیر کمیٹی قائم کی تاکہ حکومت اور عوام کو کشمیریوں کی حمایت کے لیے منظم اور سرگرم کیا جاسکے۔
فروری 1975 میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے ایک بار پھر ملک گیر ہڑتال ہوئی۔
اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ 22 برسوں کی طویل سیاسی کشمکش کے بعد بالاخر شیخ عبداللہ نے انڈین حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ، جسے ’اندرا، عبداللہ ایکارڈ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، کر کے کانگریس کی مدد سے دوبارہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کا اقتدار حاصل کر لیا لیکن اس بار وہ وزیراعظم نہیں وزیراعلیٰ بننے پر راضی ہوئے۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں اس معاہدے پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ چنانچہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ فروری کے آخری جمعہ کو ایک پرامن ہڑتال کی جائے گی۔
یہ ہڑتال نہ صرف پاکستان اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں ہوگی بلکہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بھی ہو گی۔ بھٹو نے اس دن جلسے یا احتجاجی مظاہرے سے منع کیا بلکہ کہا کہ پرامن طریقے سے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے۔
محمد فاروق رحمانی جو کئی کتابوں کے منصف ہیں اور نوے کی دہائی میں سرینگر سے پاکستان منتقل ہوئے، اس ہڑتال کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس مضمون نگار سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ یہ ایک تاریخی اور غیر معمولی ہڑتال تھی۔ گلیوں میں ہُو کا عالم اور سڑکیں سنسان تھیں۔
وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں بھی بہت مقبول تھے۔ اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے وزیر خارجہ کے طور پرجوش انداز میں کی جانے والی تقریروں نے انھیں کشمیریوں میں بے پناہ مقبولیت عطا کی تھی۔
انٹرنیشنل
جون میں ڈالر کا کیا ہوگا

جون 2023 میں ڈالر کی شرح تبادلہ: مئی میں کرنسی میں تبدیلی کے بعد استحکام ڈالر برآمد کنندگان اور تیل کی قیمتوں، پابندیوں اور منافع کے خطرے سے متاثر ہوگا۔ اسی وقت، غیر ملکیوں کے ذریعہ کاروبار کی فروخت کے لین دین کا اثر برقرار رہے گا، لیکن ایک حد تک۔ آر بی سی انویسٹمنٹ نے تجزیہ کاروں سے بات کی۔
مئی 2023 کو غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی کے بلند اتار چڑھاؤ کے لیے یاد رکھا جائے گا — مہینے کے آغاز سے، ڈالر کی شرح مبادلہ ₽80 سے ₽75 تک گرنے میں کامیاب ہوئی، اور پھر پچھلی سطح پر بحال ہوئی۔ مزید یہ کہ، دونوں حرکتیں – نیچے کی طرف اور اوپر کی طرف – وقت میں تقریباً ایک ہفتہ لگا۔ 19 مئی کو ٹریڈنگ کے نتیجے میں، ڈالر روبل کے مقابلے میں 0.28% گر گیا – اس کی شرح بالکل ₽80 تھی، یورو 0.05% گر کر ₽86.5 پر آ گیا۔
تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ شرح مبادلہ میں استحکام آیا ہے۔ PSB کے چیف تجزیہ کار ڈینس پوپوف کو یقین ہے کہ بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال اور مسلسل معاشی تبدیلی اب بھی مقامی عدم توازن کا باعث بنے گی۔
آر بی سی انویسٹمنٹ نے ماہرین سے پوچھا کہ روسی کرنسی پر کیا اثر پڑے گا، ڈالر کیوں گر سکتا ہے۔ ملکی زرمبادلہ کی منڈی میں برآمد کنندگان کے زرمبادلہ کی کمائی کو تبدیل کرنے کے لیے روبل تجارتی بہاؤ اور کارروائیوں کے لیے حساس رہتا ہے۔ 15 اپریل سے 14 مئی 2023 تک روسی یورال تیل کی ایک بیرل کی اوسط قیمت $51.15 سے بڑھ کر $55.97 ہوگئی۔
روسی توانائی کی قیمتوں کو معمول پر لانے سے اپریل-مئی میں پیداوار میں اعلان کردہ کمی کے باوجود آنے والے مہینوں میں برآمدی آمدنی میں کچھ اضافہ ہو گا، آندرے میلاشچنکو، روس کے ماہر اقتصادیات اور رینیسانس کیپٹل میں CIS+ کا خیال ہے۔
اس طرح، اگر تیل کی قیمتوں میں اضافہ جاری رہتا ہے، اور جغرافیائی سیاسی صورتحال بدستور برقرار رہتی ہے، تو روبل اعتدال سے مضبوط ہوتا رہے گا، BCS میر انویسٹمنٹ کے اسٹاک مارکیٹ کے ماہر دیمتری بابن کا خیال ہے۔
“بیس لائن منظر نامے میں، ہمیں جون میں تیل کی منڈی میں قیمتوں میں کمی کا خطرہ نظر نہیں آتا۔ ڈیویڈنڈ سیزن کے لیے ایکسپورٹرز کی جانب سے زرمبادلہ کی کمائی کو تبدیل کرنے کا عمل آخری مراحل میں ہے۔ تیل کی قیمتوں کی حرکیات اور، نتیجے کے طور پر، مقامی مارکیٹ میں غیر ملکی کرنسی کی آمد کا حجم روبل کی شرح مبادلہ کا تعین کرنے والا عنصر ہو گا،” الور بروکر سرمایہ کاری کمپنی کے سرمایہ کاری کے حکمت عملی ساز پاول ویروکن نے کہا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ روسی تیل کمپنیاں برآمدی ریکارڈ توڑ رہی ہیں، روسی مارکیٹ میں زرمبادلہ کی آمدن میں کمی آرہی تھی: اپریل میں، ہمارے سب سے بڑے برآمد کنندگان نے اسٹاک ایکسچینج میں صرف 7 بلین ڈالر فروخت کیے – مارچ کے مقابلے میں 40% کم، اور 54 % دسمبر کے مقابلے میں کم، تجزیہ کار FG “Finam” الیگزینڈر پوٹاون نے کہا۔
“روبل پر دباؤ کا عنصر یورپی یونین اور G7 ممالک کی طرف سے پابندیوں کے اگلے پیکج کو اپنانے کی صورت میں غیر ملکی کرنسی کی آمد کو کم کرنے کا خطرہ ہو سکتا ہے، جو روس سے خام مال کی برآمد کو انتہائی مشکل بنا دے گا۔ اور مہنگا،” پوٹاون نے خبردار کیا۔
2. روسی کاروبار سے غیر ملکیوں کا اخراج
اپریل کے شروع میں، جب ڈالر 83.5 تک بڑھ گیا، ماہرین نے پہلی بار اس حقیقت کے بارے میں بات کرنا شروع کی کہ روس چھوڑنے والے غیر ملکی کاروباروں سے اثاثے خریدنے کے لین دین سے روبل متاثر ہو سکتا ہے۔ درحقیقت، وہ بڑھتی ہوئی مانگ پیدا کرتے ہیں، جب ایک روسی خریدار کو ایک ساتھ بڑی مقدار میں کرنسی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
قبل ازیں نائب وزیر خزانہ الیکسی موئسیف نے کہا کہ محکمہ کرنسی کے ساتھ تبادلوں کے لین دین پر ایک ہی حد متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہے جب غیر دوست ممالک کے سرمایہ کار روسی کاروبار چھوڑ دیں گے۔ بعد میں، اس خیال کی حمایت بینک آف روس کی سربراہ ایلویرا نبیولینا نے کی۔
میلاشچینکو نے کہا کہ تجارتی حجم میں کمی کے پس منظر میں غیر ملکی زرمبادلہ کی منڈی میں غیر رہائشیوں کے انفرادی لین دین کی نمایاں مقدار کے لیے روبل کی شرح تبادلہ حساس ہو گئی ہے۔ “نئے بڑے لین دین سے قومی کرنسی کو کمزور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس طرح کے لین دین کا اثر کم ہوسکتا ہے، لیکن پھر بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا،” ماہر کا خیال ہے۔
روسی کمپنیوں سے غیر ملکیوں کی طرف سے سرمائے کی واپسی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، بابن نے یاد دلایا کہ اس سے قبل ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے گئے تھے جو غیر رہائشیوں کے ملکیتی حصص کو گھریلو ڈھانچے کے انتظام میں منتقل کر چکے تھے۔ ہم حکم نامے کے بارے میں بات کر رہے ہیں “کچھ پراپرٹی کے عارضی انتظام پر”، جو اب تک صرف دو اثاثوں کے لیے درست ہے – جرمن یونیپر اور فنش فورٹم۔
3. منافع
آنے والے ہفتوں میں، روبل کی شرح مبادلہ سب سے بڑی روسی کمپنیوں کی جانب سے منافع کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس مقصد کے لیے ان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی کو تبدیل کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ادائیگیوں کی واپسی کے لیے ضروری معکوس کارروائیوں سے متاثر ہو سکتی ہے، Renaissance Capital نے نوٹ کیا۔
قبل ازیں، SberCIB تجزیہ کاروں نے حساب لگایا کہ مئی سے جولائی کے عرصے کے لیے، ماسکو ایکسچینج انڈیکس کی نصف کمپنیاں منافع کے لیے 1.8 ٹریلین ڈالر مختص کر سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ، ادائیگیوں پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے – 75% سے زیادہ رقم پانچ جاری کنندگان پر آتی ہے۔ کمپنیوں کے پاس فی الحال اتنے زیادہ روبل نہیں ہیں، اس لیے وہ ڈالر، خاص طور پر برآمد کنندگان کو فروخت کریں گے۔
-
انٹرنیشنل1 year ago
سری لنکا میں مہنگائی تمام حدود عبور کرگئی ہری مرچ 1700 روپے کلو
-
انٹرنیشنل1 year ago
بلغاریہ کی آبادی میں خطرناک حد تک کمی ہو گئی، اقوام متحدہ
-
انٹرنیشنل1 year ago
ازبکستان اور تاجکستان ملک کے ہیلی کاپٹر واپس کریں ورنہ نقصان ہوگا، طالبان
-
انٹرنیشنل1 year ago
امریکہ میں KFC نے نباتات سے تیار کردہ فرائیڈ چکن پیش کردیا