اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

ایران فوجی قیادت کے نقصان کے باوجود کیسے ثابت قدم رہا؟

Iranian generals

ایران فوجی قیادت کے نقصان کے باوجود کیسے ثابت قدم رہا؟

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں میں ایران کو اپنی اعلیٰ فوجی قیادت کا غیر معمولی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ جنرل محمد باقری، جنرل حسین سلامی، اور ایرو اسپیس چیف علی اکبر حاجی زادہ سمیت کئی اہم عسکری کمانڈر شہید ہوئے۔ اس طرح کی قیادت کا نقصان کسی بھی ملک کے لیے کمزوری کا باعث بن سکتا ہے، مگر ایران نے حیران کن طور پر فوری ردعمل دیا اور اپنی عسکری و حکومتی مشینری کو مکمل طور پر فعال رکھا۔ یہ ثابت قدمی کئی اسباب پر مبنی ہے:

ادارہ جاتی تسلسل اور متبادل قیادت کی موجودگی،، ایران کی فوج اور پاسدارانِ انقلاب کی ساخت ایسی ہے کہ ہر اہم عہدے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ متبادل افراد تیار ہوتے ہیں۔ ایران نے فوری طور پر جنرل عبدالرحیم موسوی کو چیف آف اسٹاف اور محمد پاکپور کو پاسدارانِ انقلاب کا نیا سربراہ مقرر کر دیا، جس سے قیادت میں خلا پیدا نہیں ہونے دیا گیا۔ مرکزی قیادت کی مضبوط گرفت،، ایرانی سیاسی اور عسکری ڈھانچے میں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی قیادت تمام فیصلوں کی آخری اتھارٹی ہے۔ ان کا مضبوط کنٹرول، قومی بیانیے کی یکجہتی، اور عوامی سطح پر مزاحمتی سوچ نے نظام کو بکھرنے نہیں دیا۔

انٹیلیجنس اور کنٹرول نیٹ ورک،، ایران کی داخلی انٹیلیجنس ایجنسیاں نہ صرف دشمن کی نقل و حرکت پر گہری نظر رکھتی ہیں بلکہ کسی بھی اندرونی خلفشار کو فوری کنٹرول میں رکھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اعلیٰ کمانڈرز کی شہادت کے باوجود ملک میں کوئی ہنگامہ یا بدنظمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ریاستی بیانیہ اور عوامی ردعمل،،
ایرانی میڈیا اور حکومت نے شہداء کو “مدافعانِ وطن” اور “شہیدانِ مقاومت” قرار دے کر ان کے خون کو انقلاب کے تسلسل سے جوڑ دیا۔ اس سے عوام میں جذباتی یکجہتی پیدا ہوئی اور ملک دشمن کے مقابلے میں مزید متحد ہوا۔

فوری جوابی کارروائیاں،، ایران نے ثابت قدمی صرف نظم و نسق میں نہیں بلکہ عسکری میدان میں بھی دکھائی۔ متعدد بیلسٹک میزائل حملے، اسرائیلی ڈرونز کے خلاف جوابی کارروائیاں، اور خطے میں موجود اتحادی گروہوں کو متحرک کرنا — یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کا ردعمل ایک منظم عسکری پالیسی کا حصہ ہے، نہ کہ جذباتی جوش۔

علاقائی اتحاد اور سفارتی حمایت،، چند مسلم ممالک اور روس جیسے حلیف ممالک کی ہمدردی اور سفارتی حمایت نے بھی ایران کو حوصلہ دیا۔ پاکستان، شام، عراق، حزب اللہ اور یمن کے گروہوں نے ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے بیانات دیے، جو اس کے موقف کو تقویت دیتے ہیں۔ ایران نے اپنی مضبوط سیاسی و عسکری ساخت، نظریاتی یکجہتی، اور منصوبہ بندی کی بدولت انتہائی نازک مرحلے میں استقامت دکھائی۔ قیادت کا نقصان بلاشبہ ایک چیلنج تھا، لیکن ایرانی نظام نے اسے کمزوری کے بجائے قومی عزم میں تبدیل کیا۔ یہ مزاحمتی حکمتِ عملی ایران کی ایک دہائیوں پر محیط تربیت یافتہ ریاستی سوچ کی عکاسی ہے۔

Share it :