بھوک جنوبی افریقہ کی جمہوریت کا امتحان ہے، صدر رامافوسا

Cyril Ramaphosa Cyril Ramaphosa

بھوک جنوبی افریقہ کی جمہوریت کا امتحان ہے، صدر رامافوسا

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے ملک میں بڑھتی ہوئی غذائی قلت پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت، کاروباری طبقے اور سول سوسائٹی کو فوری طور پر متحد ہو کر اس بحران کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اپنے ہفتہ وار خطاب میں صدر رامافوسا نے کہا کہ “بھوک کے خلاف جدوجہد دراصل جنوبی افریقہ کی جمہوری ترقی کا ایک اہم امتحان ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اس وقت ملک کے 1 کروڑ 50 سے 60 لاکھ شہریوں کو مناسب یا انتہائی ناکافی خوراک دستیاب ہے، حالانکہ جنوبی افریقہ ان 29 ممالک میں شامل ہے جہاں خوراک اور پانی کا حق آئین میں شامل ہے۔ رامافوسا کے مطابق غربت پر قابو پانا اور عوام کے لیے روزمرہ اخراجات کو کم کرنا قومی اتحاد کی حکومت کی اسٹریٹجک ترجیحات میں شامل ہے۔ آئین ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ اپنی دستیاب وسائل کے مطابق ایسے قانونی اور انتظامی اقدامات کرے جن سے عوام کے خوراک کے حق کو تدریجی طور پر یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1994 سے لے کر اب تک مختلف حکومتوں نے بھوک کے خلاف جامع حکمتِ عملی اپنائی ہے، جن میں قانون سازی، صحت کے شعبے میں غذائی پروگرام، اور براہِ راست کمیونٹی سطح پر خوراک کی تقسیم جیسے اقدامات شامل ہیں۔

صدر رامافوسا نے نیشنل اسکول نیوٹریشن پروگرام کو سب سے مؤثر اقدام قرار دیتے ہوئے کہا یہ پروگرام روزانہ 90 لاکھ سے زائد غریب گھرانوں کے بچوں کو غذائیت فراہم کرتا ہے۔ اسکول اور کمیونٹی گارڈن سے حاصل کردہ تازہ اجزاء سے تیار کھانے نہ صرف بچوں کی حاضری اور توجہ میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ تعلیمی کارکردگی پر بھی مثبت اثر ڈالتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے نتائج واضح ہیں: گزشتہ سال ملک کے 60 فیصد غریب اسکولوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے مجموعی بیچلر پاسز میں 67 فیصد حصہ حاصل کیا۔ صدر کے مطابق، جنوبی افریقہ کا سوشل سیفٹی نیٹ — جس میں سماجی وظائف، مفت پرائمری ہیلتھ کیئر، مفت بنیادی اور اعلیٰ تعلیم، اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے — نے غریب گھرانوں کو خوراک خریدنے کے قابل بنایا ہے۔

Advertisement

انہوں نے بتایا کہ سوشل ویج (سماجی فلاحی اخراجات) حکومت کے کل بجٹ کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے، جو اوسطاً درمیانی آمدنی والے ممالک میں سب سے زیادہ شرح ہے۔
عالمی بینک کی 2021 کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے رامافوسا نے کہا کہ جنوبی افریقہ کا سماجی پروگرامز کا نظام “مؤثر، ہدف پر مبنی اور غریب ترین گھرانوں کے لیے حقیقی فائدہ مند” ہے، جو غربت اور عدم مساوات کو نمایاں طور پر کم کرتا ہے۔ انہوں نے اسٹیلن بوش یونیورسٹی میں ہونے والی ساتویں سوشل جسٹس سمٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ خوراک کی فراہمی اقوام متحدہ کے 2030 کے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کا بنیادی حصہ ہے۔ رامافوسا نے سینٹر فار سوشل جسٹس کے “موسا پلان” کا خیرمقدم کیا، جس کا مقصد ڈیٹا پر مبنی تحقیق اور وسائل کے اشتراک کے ذریعے غربت کے خاتمے کے لیے حکومتی کوششوں کو مضبوط بنانا ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ بے روزگاری، معاشی جمود اور بڑھتی ہوئی مہنگائی ملک میں خوراک کی فراہمی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا مارکیٹ کے بعض عوامل خوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں، اور قیمتوں میں مصنوعی اضافہ دراصل ان گھرانوں کے لیے خوراک کی عدم دستیابی کو بڑھا رہا ہے جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔ صدر نے بتایا کہ مسابقتی کمیشن نے حال ہی میں خوردنی تیل کی کمپنی پر 10 لاکھ رینڈ جرمانہ عائد کیا ہے، اور روٹی، آٹے، مرغی اور سبزیوں کی منڈیوں میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے بڑے ریٹیلرز کو تنبیہ کی کہ وہ اپنی سماجی ذمہ داری ادا کریں جنوبی افریقہ کی بڑی پانچ ریٹیل کمپنیاں غذائیت سے بھرپور خوراک کو عام شہریوں کے لیے سستا بنانے میں زیادہ کردار ادا کر سکتی ہیں اور انہیں یہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے شاپ رائٹ کی ’5 رینڈ پراڈکٹ لائن‘ کی تعریف کی، مگر کہا کہ مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ غریب طبقے کو صحت مند، کم قیمت غذائی اشیاء دستیاب ہوں، خصوصاً پروٹین، پھل اور سبزیاں۔
صدر رامافوسا نے آخر میں کہا آخرکار تمام کوششوں کی کامیابی کا انحصار حکومت، کاروبار، مزدور طبقے اور سول سوسائٹی کے مابین گہرے تعاون پر ہے۔ ہماری جمہوری کامیابی کا اصل پیمانہ یہ ہے کہ ملک میں کوئی بھی شخص بھوکا نہ سوئے۔