اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

Language

روسی پیش قدمی جاری رہی تو یوکرین روس کا حصہ بن جائے گا، مغربی تھنک ٹینکس

Russian military

روسی پیش قدمی جاری رہی تو یوکرین روس کا حصہ بن جائے گا، مغربی تھنک ٹینکس

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں روس کی مسلسل پیش قدمی اور یوکرینی دفاعی نظام کی کمزوری نے مغربی تھنک ٹینکس کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ متعدد مغربی تحقیقی اداروں اور سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر روسی فوج نے یہی رفتار برقرار رکھی تو آئندہ چند سالوں میں یوکرین کا ایک بڑا حصہ یا مکمل ریاست روسی فیڈریشن میں ضم ہو سکتی ہے۔ برطانوی، امریکی اور یورپی تھنک ٹینکس کی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق روس نے یوکرین میں فوجی، سیاسی اور نفسیاتی محاذوں پر واضح برتری حاصل کر لی ہے۔ خاص طور پر مشرقی یوکرین کے علاقوں، جیسے دونیسک، لوہانسک، اور زاپوروزیئے میں روسی افواج نے مقامی ڈھانچے اور حکمرانی کے نظام کو روسی قوانین کے تحت ڈھالنا شروع کر دیا ہے۔

مغربی تجزیہ کاروں کے مطابق روس نہ صرف جنگی میدان میں فتح حاصل کر رہا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ علاقوں میں مقامی آبادی کو روسی شہریت دینا، روسی زبان اور کرنسی کو فروغ دینا، اور تعلیمی نصاب میں تبدیلی جیسی پالیسیاں بھی عمل میں لا رہا ہے، جو ایک طویل مدتی انضمام کی حکمت عملی کی عکاسی کرتی ہیں۔

تھنک ٹینکس نے خبردار کیا ہے کہ اگر مغربی دنیا یوکرین کی بھرپور مدد جاری نہ رکھ سکی، یا اندرونی سیاسی اختلافات کے باعث تعاون میں کمی آئی، تو روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنے طویل المدتی منصوبے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جس کا مقصد سابق سوویت یونین کی حدود کو بحال کرنا ہے۔

اس پیش رفت سے یورپ میں سلامتی کا توازن بگڑ سکتا ہے اور خطے میں ایک نئی سرد جنگ کا آغاز بھی ممکن ہے۔ تھنک ٹینکس نے مغربی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین کو جدید ہتھیار، مالی امداد، اور انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کرنے میں تاخیر نہ کریں، ورنہ آنے والے برسوں میں یوکرین کا جغرافیہ اور اقتدار اعلیٰ مکمل طور پر تبدیل ہو سکتا ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری تنازعہ کو تین سال سے زائد ہو چکے ہیں، اور اب مغربی تجزیہ کاروں اور پالیسی سازوں کے درمیان یہ خدشات شدت اختیار کر گئے ہیں کہ روس بتدریج اپنے جنگی اور سیاسی اہداف حاصل کر رہا ہے۔ متعدد رپورٹس اور مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی تجزیاتی تحریریں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یوکرین کی مزاحمت کمزور پڑتی جا رہی ہے جبکہ روس نے مشرقی یوکرین کے کئی اہم علاقوں پر کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔

مغربی حلقوں کا کہنا ہے کہ روس نے اپنی عسکری حکمت عملی میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں، جن کے تحت وہ بڑے حملوں کے بجائے محدود مگر مؤثر پیش قدمی پر توجہ دے رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ روس نے یوکرین کے دفاعی انفرا اسٹرکچر، اسلحہ سازی کے کارخانوں، اور ڈرون مراکز کو مسلسل نشانہ بنا کر یوکرینی فوج کی صلاحیتوں کو متاثر کیا ہے۔ امریکی اور یورپی حکام کے درمیان اس وقت شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ یوکرین کو فراہم کی جانے والی فوجی امداد اور مالی وسائل اب اس جنگ کے دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے درمیان بھی اختلافات ابھر رہے ہیں کہ جنگ کو کتنے عرصے تک جاری رکھا جا سکتا ہے، اور کس قیمت پر۔

برطانیہ، فرانس، اور جرمنی کے چند تھنک ٹینکس نے خبردار کیا ہے کہ اگر روسی پیش قدمی اسی رفتار سے جاری رہی تو ممکن ہے کہ یوکرین کو مغرب کے دباؤ پر مذاکرات کی میز پر آنا پڑے، جس کا نتیجہ ماسکو کے لیے سیاسی فائدے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ دوسری جانب روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بارہا یہ مؤقف دہرایا ہے کہ یوکرین میں فوجی کارروائی روس کی قومی سلامتی، سرحدی خودمختاری، اور نیٹو کے پھیلاؤ کے خلاف دفاعی اقدام ہے۔ مجموعی طور پر یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ میدان جنگ میں روس کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے، جبکہ یوکرین کے اتحادی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف یوکرین بلکہ پورے یورپ کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔

Share it :