“تحفظی ایکٹ کے نفاذ سے عدالتی مساوات اور شفافیت کو نئی جہت ملے گی” — کیانان اسماعیلوف

آذربائیجان کے وکلا کی تنظیم (کالج آف ایڈووکیٹس) کے رکن اور ماہر قانون دان کیانان اسماعیلوف سے کا کہنا ہے کہ “قانون میں ’تحفظی ایکٹ‘ کے نفاذ سے فریقین کی برابری اور عدالتی مقابلے کے اصولوں کی حقیقی عملداری میں اضافہ ہوگا” — یہ بات انھوں نے “نیو ایپوک” کی جمیلہ چبوتاریووا سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہی.-

(ترجمہ : اشتیاق ہمدانی)

سوال: محترم کیانان صاحب، آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہم شکر گزار ہیں کہ آپ نے اپنے مصروف شیڈول کے باوجود ہمارے اشاعتی ادارے کے لیے وقت نکالا۔
جواب: میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے مدعو کیا۔ یہ موضوع اس وقت ہمارے معاشرے کے لیے نہایت اہم اور بروقت ہے۔

Advertisement

سوال: حال ہی میں آپ کی ایک علمی تحریر “فوجداری کارروائی کے قانون میں ‘تحفظی ایکٹ’ — فریقین کی برابری اور عدالتی مقابلے کے اصول کی ضمانت کے طور پر” شائع ہوئی، جسے “آذربائیجانی ایڈووکیٹ” نامی قانونی جریدے میں چھاپا گیا۔ اس تحریر کو وکلا اور اعلیٰ سطحی حکام دونوں کی جانب سے مثبت فیڈ بیک ملا۔
آذربائیجان کے وکلا کے کالج کے چیئرمین، جناب انار باگیروف نے اس میں اٹھائے گئے نکات کو انتہائی اہم قرار دیا اور کہا کہ جب ایک “الزامی ایکٹ” موجود ہے تو منطقی طور پر ایک “تحفظی ایکٹ” کا وجود بھی لازمی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وکلا کی تنظیم اس حوالے سے ٹھوس تجاویز پر کام کر رہی ہے، جنہیں جلد متعلقہ اداروں میں پیش کیا جائے گا۔
آپ کو یہ موضوع چننے کی ترغیب کہاں سے ملی؟

جواب: یہ خیال مجھے اُس وقت آیا جب میں امریکہ کے شہر شکاگو میں ماسٹرز کی سطح پر قانون کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ عملی طور پر میں اکثر اس ضرورت سے دوچار ہوتا تھا کہ دفاعی فریق کے مؤقف اور دلائل کو جامع انداز میں پیش کیا جائے۔ اگرچہ دفاعی موقف مختلف درخواستوں، اعتراضات یا بیانات میں ظاہر ہوتا ہے، مگر ایک منظم قانونی دستاویز کی عدم موجودگی میں دفاع کی پوزیشن بکھری ہوئی رہتی ہے۔
میں نے یہ خیال جناب انار باگیروف کے ساتھ شیئر کیا، جنہوں نے اس تجویز کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس تحقیق کی حمایت کی۔ بعد ازاں میں نے اس مضمون پر مزید محنت کے ساتھ کام جاری رکھا۔ اس موقع پر میں انار صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انھوں نے میری تحریر کو “آئین و خودمختاری کے سال” کے خصوصی شمارے میں شائع کرنے میں تعاون کیا۔

سوال: مختصراً بتائیے، آپ کے مضمون کا بنیادی نکتہ کیا ہے؟

جواب: اس مضمون میں میں نے یہ مؤقف پیش کیا ہے کہ فوجداری کارروائی کے قانون میں “تحفظی ایکٹ” (Defence Act) کا اضافہ ضروری ہے، تاکہ فریقین کی برابری اور عدالتی مقابلے کے اصول کو عملی طور پر یقینی بنایا جا سکے۔
آذربائیجان کے آئین میں درج بنیادی حقوق — جیسے عدالتی تحفظ، قانونی مدد کا حق اور بے گناہی کی مفروضہ — کو صرف نظری طور پر نہیں بلکہ عملی سطح پر بھی نافذ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دفاعی فریق کے اختیارات استغاثہ (Prosecution) کے برابر ہوں۔
فی الحال فوجداری قانون میں صرف “الزامی ایکٹ” کے لیے تفصیلی ضابطہ موجود ہے، لیکن دفاع کو کوئی جامع تحریری دستاویز پیش کرنے کا حق نہیں دیا گیا۔ دفاعی موقف مختلف نوعیت کی تحریروں اور زبانی بیانات میں بکھرا ہوتا ہے، جس کے باعث عدالت میں پہلا تاثر زیادہ تر استغاثہ کی دستاویز سے بنتا ہے۔ یہ صورتحال عدالتی مقابلے کے اصول کو کمزور اور دفاعی عمل کو محدود کرتی ہے۔
میں نے اپنے مضمون میں انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور امریکہ جیسے ممالک کا تقابلی تجزیہ کیا ہے جہاں دفاع کی پوزیشن ایک منظم دستاویز کی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔
میری تجویز ہے کہ آذربائیجان کے فوجداری قانون میں ایک نیا آرٹیکل 289-1 شامل کیا جائے جس کا عنوان “تحفظی ایکٹ” ہو۔ اس دستاویز میں مقدمے کی تعارفی تفصیلات، الزامات پر مؤقف، دلائلِ دفاع، اور نتائج و ضمیمات شامل ہوں۔
یہ ماڈل نہ صرف فریقین کے درمیان توازن پیدا کرے گا بلکہ وکلا کے پیشہ ورانہ معیار، عدالتی شفافیت، اور بین الاقوامی اصولوں سے ہم آہنگی کو بھی مضبوط بنائے گا۔

سوال: آپ کے خیال میں اس تجویز کو عملی طور پر نافذ کرنا کتنا ممکن ہے؟ اور وکلا کو اس عمل میں کن مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے؟

جواب: میرے نزدیک اس قانون کا نفاذ بالکل ممکن ہے۔ یہ دراصل ایک ایسا قانونی دستاویزاتی فریم ورک ہوگا جس میں وکیل اپنے دفاع کو جامع انداز میں پیش کر سکے گا۔
چونکہ وکلا کی تنظیم کے اراکین پہلے ہی سخت امتحانی مراحل سے گزرتے ہیں — جو تین مراحل پر مشتمل ہوتے ہیں — لہٰذا پیشہ ور وکلا کے لیے اس ایکٹ کا استعمال کسی مشکل کا باعث نہیں ہوگا۔

سوال: حالیہ دنوں میں بغیر اجازت ذاتی معلومات کے پھیلاؤ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے اور کیا واقعی سزا دی جاتی ہے؟

جواب: جی ہاں، بدقسمتی سے ایسے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ آذربائیجان کے فوجداری قانون کی دفعہ 156 کے تحت کسی کی ذاتی یا خاندانی معلومات کا غیرقانونی حصول، فروخت یا کسی اور کو منتقل کرنا جرم ہے۔ اس میں ایسے تمام دستاویزات، تصاویر، ویڈیوز یا آڈیو ریکارڈنگز شامل ہیں جو کسی کی نجی زندگی سے متعلق ہوں۔
حال ہی میں اس قانون میں ترمیم کر کے ان جرائم کی سزائیں سخت کی گئی ہیں، خصوصاً اُن صورتوں کے لیے جہاں ڈرون یا دیگر آلات کے ذریعے بغیر اجازت ذاتی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔
نجی زندگی میں مداخلت سختی سے منع ہے اور قانون کے مطابق اس کی سزا دی جاتی ہے۔
عملی طور پر بھی ایسے کئی مقدمات موجود ہیں جن میں افراد کو مجرم قرار دے کر سزائیں دی گئی ہیں۔
لہٰذا شہریوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے حقوق سے آگاہ رہیں، اور اگر کوئی ان کی ذاتی معلومات کی خلاف ورزی کرے تو فوراً متعلقہ اداروں سے رجوع کریں۔