روسی ایلچی روديون میروشنيک کی اہم بریفنگ — کیف حکومت کے جنگی جرائم پر نئے انکشافات، پاکستانی صحافی اشتیاق ہمدانی کا نمایاں سوال

ماسکو (نمائندہ خصوصی):
روسی وزارتِ خارجہ کے خصوصی ایلچی برائے جنگی جرائم روديون ویلیریووچ میروشنيک نے ماسکو میں منعقدہ ایک اہم پریس بریفنگ میں کیف حکومت کے جنگی جرائم سے متعلق نئے حقائق پیش کیے۔
انہوں نے کہا کہ روس کے پاس ایسے نئے شواہد موجود ہیں جو یوکرینی فوج کی جانب سے شہری آبادی اور صحافیوں پر کیے گئے حملوں کی تصدیق کرتے ہیں، اور یہ شواہد جلد بین الاقوامی تنظیموں کو پیش کیے جائیں گے۔

اس موقع پر پاکستانی صحافی اشتیاق ہمدانی نے سوال کیا کہ “نئے شواہد اور کیف حکومت کے جرائم میں پچھلے ادوار کے مقابلے میں کیا فرق ہے؟

اس سوال کے جواب میں روديون میروشنيک نے اپنی آن لائن بریفنگ میں کہا ہے کہ یوکرینی حکومت کے جنگی جرائم کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2025 کے دوران سامنے آنے والے نئے شواہد پچھلے عرصے کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین اور منظم ہیں۔ “۔ کیف حکومت کے حملوں میں عام شہریوں اور صحافیوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ صرف چند مہینوں میں 200 سے زائد افراد ڈرون حملوں میں جاں بحق یا زخمی ہوئے، جن میں مغربی ممالک کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔ یہ ایک منظم جنگی جرم ہے جس کے تمام شواہد بین الاقوامی اداروں کو فراہم کیے جائیں گے۔”

سوال سے قبل پاکستانی صحافی اشتیاق ہمدانی نے روسی صحافی ایوان زویف کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ایوان زویف ایک بہادر اور ذمہ دار صحافی تھے جنہوں نے اپنے پیشہ ورانہ فرائض پوری دیانتداری سے انجام دیے۔ اشتیاق ہمدانی نے کہا کہ زویف کی سچائی کے لیے جدوجہد اور اپنے مشن کے ساتھ وابستگی ہمیشہ ان کے ساتھیوں اور عالمی صحافتی برادری کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑے گی۔

جس کے جواب میں روديون میروشنيک نے کہا کہ:
“میں سب سے پہلے یوکرینی ڈرون حملے میں جاں بحق ہونے والے روسی صحافی ایوان ژویف (Ivan Zhuyev) کا ذکر کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ “آپ کی اس طرف توجہ اہم اور بروقت ہے، کیونکہ سچائی پر خاموشی خود ایک سوال بن چکی ہے۔ اوریہی وہ مسائل ہیں جن پر عالمی برادری کی خاموشی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک دانستہ اور منصوبہ بند حملہ تھا جو یوکرینی دہشت گردوں نے کیا۔”

Advertisement

انہوں نے مزید کہا: “یہ کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یوکرینی سیاسی قیادت ان لوگوں کی موجودگی سے خائف ہے جو محاذِ جنگ سے اصل صورتحال دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ جب یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں جھوٹے بیانیے پیش کرتے ہیں، تو میدانِ جنگ میں موجود صحافی ہی وہ لوگ ہیں جو سچ دکھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان صحافیوں کو اپنی سچائی کی قیمت اپنی جان سے چکانی پڑ رہی ہے۔”

میروشنيک نے کہا کہ ایوان ژویف ایک شہری صحافی تھے، اس لیے ان کا قتل بین الاقوامی انسانی قوانین کے مطابق ایک جنگی جرم ہے۔”یہ جرم کیف حکومت، یوکرینی عسکریت پسندوں، اور ان تمام لوگوں کے ضمیر پر ہے جنہوں نے یہ حکم دیا اور جنہوں نے اس پر عمل کیا۔”

روسی ایلچی نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت اس واقعے سے متعلق تمام شواہد اکٹھے کر رہی ہے، جنہیں بین الاقوامی اداروں کو پیش کیا جائے گا تاکہ کیف حکومت کے اقدامات کا قانونی اور اخلاقی جائزہ لیا جا سکے۔

“ہم نے کئی ایسے دستاویزات عالمی تنظیموں کو بھیجے ہیں جو آزادیِ صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کا دعویٰ کرتی ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ مختلف تنازعات میں دوہرا معیار اپناتی ہیں۔ جب صحافی محاذِ جنگ پر سچ دکھاتے ہیں تو ان کے ساتھ ہمدردی کی بجائے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔”

میروشنيک نے آخر میں کہا کہ روس ان تنظیموں سے زیادہ مؤثر کردار کی توقع رکھتا ہے اور اپنی جانب سے ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا تاکہ سچائی پر مبنی فیصلے ممکن ہو سکیں۔