بھارتی فیک نیوز کی یلغار: دہلی کیوں ماسکو اور اسلام آباد کو آمنے سامنے لانے کی کوشش کر رہا ہے؟


اشتیاق ہمدانی

بھارت گزشتہ کچھ عرصے سے خطے میں ایک ایسی فیک نیوز کی جنگ چھیڑے ہوئے ہے جس کا ہدف مسلسل پاکستان ہی بنتا ہے۔ کبھی جعلی ویڈیوز، کبھی فرضی آپریشن، کبھی ’’نامعلوم ذرائع‘‘ کے سہارے لگائے گئے الزامات—اور اب تازہ وار یہ کہ ماسکو میں ’’آئی ایس آئی نیٹ ورک‘‘ پکڑا گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دعوے کی نہ روس کے کسی سرکاری ادارے نے تصدیق کی، نہ عدالتوں میں اس نوعیت کی کوئی کارروائی ہوئی، اور نہ ہی کسی بڑے روسی میڈیا ہاؤس نے اسے خبر سمجھا۔ اگر واقعی ایسا کوئی واقعہ ہوتا تو TASS، RIA Novosti، Interfax یا RT جیسے ادارے اسے ضرور رپورٹ کرتے۔ یہ خاموشی خود اس خبر کے اندر چھپے سچ کو آشکار کرتی ہے کہ یہ دعویٰ زمینی حقیقت نہیں بلکہ بھارتی میڈیا کی گھڑی ہوئی داستان ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ بھارت اس قسم کی تازه کہانیاں کیوں گھڑ رہا ہے۔ وہ اپنی جنگ میں روس کو کیوں بیچ میں لانا چاہتا ہے ؟ اس کا جواب مئی 2025 کی پاک–بھارت جھڑپ میں پوشیدہ ہے، جب پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے دعووں کو نہ صرف عملی جواب دیا بلکہ بھارت کے خود ساختہ بیانیے کو بھی بے نقاب کر دیا۔ ’’آپریشن سندور‘‘ کے نام سے چلایا گیا بھارتی پروپیگنڈا عالمی سطح پر طنز کا نشانہ بنا، اور بھارتی جنگی طیاروں کی ناکامی نے دہلی کے دفاعی دعووں کو کھوکھلا ثابت کر دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج بھی اس واقعے کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں، جو بھارت کے لیے اضافی سفارتی زخم کا باعث ہے۔ اس خفت کے بعد بھارت کا بیانیہ بدلنا ناگزیر تھا—مگر حقیقت بدل نہ سکی۔

Advertisement

اسی پس منظر میں بھارت نے پاکستان کے خلاف فیک نیوز حملوں کی نئی لہر شروع کی۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی سطح پر کسی نہ کسی تنازع میں الجھایا جائے، اسے وضاحتوں میں رکھا جائے، اور اس کی ابھرتی ہوئی سفارتی جگہ کو محدود کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور روس کے درمیان حالیہ عرصے میں ہونے والی بڑھتی ہوئی قربت بھارت کے لیے بے چینی کا باعث ہے۔ تجارت، توانائی، تعلیم، سلامتی اور علاقائی تعاون—ان تمام شعبوں میں پاکستان اور روس مسلسل پیش رفت کر رہے ہیں، اور دونوں ممالک ایک دوسرے کو بااعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اگر یہ تعاون مزید مضبوط ہوا تو خطے میں طاقت کا توازن اس کے حق میں نہیں رہے گا۔

بھارت کی اپنی خارجہ پالیسی کا تضاد بھی اس صورتحال کو مزید واضح کرتا ہے۔ حال ہی میں بھارت نے امریکہ کے ساتھ ایک بڑا دفاعی تعاون معاہدہ کیا ہے جس کے تحت اسے امریکی ٹیکنالوجی، مشترکہ مشقوں اور اسٹریٹجک منصوبہ بندی تک وسیع رسائی مل گئی ہے۔ یہ معاہدہ بھارت کے لیے فخر کا باعث ہے، مگر اسی وقت بھارت پاکستان اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر اعتراضات بھی اٹھاتا ہے۔ روس نے تو کبھی بھارت کو امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے سے نہ روکا، نہ اسے اپنی دوستی کے خلاف سمجھا، اور نہ ہی کوئی سفارتی تناؤ پیدا کیا۔ پھر بھارت کو یہ کیوں گوارا نہیں کہ پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب بھارتی پالیسیوں میں چھپا ہوا ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارت پاکستان کی کسی بھی مثبت سفارتی پیش رفت کو ہضم نہیں کر پاتا۔ جب بھی پاکستان کسی اہم ملک کے ساتھ قریبی تعاون کی طرف بڑھتا ہے—خصوصاً روس جیسے عالمی اسٹریٹجک کھلاڑی کے ساتھ—بھارت فوراً اس کے خلاف کسی نہ کسی کہانی کو جنم دے دیتا ہے۔ ماسکو میں ’’آئی ایس آئی نیٹ ورک‘‘ کی فرضی گرفتاری اسی سلسلے کی تازہ مثال ہے۔ اس طرح کی کہانیاں نہ صرف پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا ہیں بلکہ روس اور پاکستان کے درمیان اعتماد کو متاثر کرنے کی کوشش بھی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس نے ان کہانیوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا، اور اس روسی رویہ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے. پاکستان نے بھی ہمیشہ کی طرح سفارتی حکمت، تحمل اور شفافیت کے ساتھ اپنا راستہ برقرار رکھا۔

پاکستان اور روس دونوں اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت کے یہ بیانات سیاسی حسد، خطے کی رقابت اور سفارتی خوف کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان اپنے تعلقات کے حوالے سے ذمہ دارانہ انداز اپنائے ہوئے ہے اور اس کی کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ تعاون، تجارت اور علاقائی استحکام کو فروغ دیا جائے۔ بھارت کے پروپیگنڈے وقتی ہو سکتے ہیں، مگر پاکستان اور روس کے تعلقات ایک طویل المدت حکمت عملی کا حصہ ہیں۔

بھارت کی بھیگی بلی کھمبا نوشنے والی حرکتیں جاری رہیں گی، مگر پاکستان کی سفارت کاری، ذمہ داری اور حقیقت پر مبنی رویہ اس بیانیے کو ہمیشہ مات دیتا رہے گا۔ خطے میں امن اور تعاون کے راستے کو جھوٹی کہانیوں سے نہیں روکا جا سکتا، اور بھارت چاہے جتنی کوشش کرے، پاکستان کا عالمی کردار اب کہیں زیادہ مضبوط، واضح اور باوقار ہے—اور یہی مستقبل کا رخ متعین کرے گا۔