بین الاقوامی کشمیر کانفرنس — بھارتی قبضے کی مذمت اور چھ نکاتی قراردادوں کی منظوری

(ماسکو / خصوصی نمائندہ)
تحریکِ کشمیر روس اور جموں و کشمیر کمیونٹی انٹرنیشنل (روس چیپٹر) کے باہمی اشتراک سے بین الاقوامی کشمیر کانفرنس ماسکو میں منعقد ہوئی، جس میں دنیا بھر سے کشمیری ماہرین، محققین، سیاسی و سماجی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ کانفرنس کا موضوع تھا “بھارتی جبری تسلط کا تاریخی جائزہ اور اس کے اثرات”۔

کانفرنس کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا جس کی سعادت سید یوسف ہمدانی نے حاصل کی۔
پروگرام کی میزبانی کے فرائض معروف کشمیری رہنما اور صحافی اشتیاق ہمدانی (چیف آرگنائزر تحریکِ کشمیر یورپ – روس چیپٹر، ممبر ایگزیکٹو کمیٹی جموں و کشمیر کمیونٹی انٹرنیشنل) نے انجام دیے۔

اشتیاق ہمدانی نے اپنے افتتاحی خطاب میں تمام مہمانانِ گرامی، مقررین اور سامعین کو خوش آمدید کہا۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جبری تسلط کا مسئلہ صرف ایک خطے کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کے ضمیر سے جڑا ہوا سوال ہے۔
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب طاقت نے انصاف کو دبایا، اس کے اثرات نسلوں تک باقی رہے اور کشمیر اسی جدوجہدِ آزادی کی روشن مثال ہے۔

کانفرنس میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، سویڈن، اسپین، ڈنمارک، جنوبی افریقہ، روس، مشرقِ وسطیٰ، پاکستان اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممتاز کشمیری رہنماؤں نے آن لائن شرکت کی۔
مقررین میں امریکہ سے ڈاکٹرغلام نبی فائی، اسلام اباد سے غلام نبی بٹ، ڈاکٹر عابدہ رفیق،افشاں کیانی، امریکہ سے رابعہ غوری، یوکے سے ایڈووکیٹ ریحانہ علی،جنوبی افریقہ سے سلمان خان، سعودی عرب سے راجہ نوید، مضفرآباد سے ساجدہ گیلانی، یوکے سے اعجاز احمد شائق، اٹلی سے چوہدری بابر، سویڈن سے سردار تیمور عزیز، زبیر حسین، کراچی سے شیخ عبدالمتین، ظہیر حسین، روالپنڈی سے راجہ پرویز احمد، فرانس سے چوہدری نعیم اور مڈل ایسٹ سے ملک فیصل شامل تھے۔

ورلڈ کشمیر اویئرنیس فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اپنے تفصیلی خطاب میں کہا کہ 27 اکتوبر 1947ء وہ دن ہے جب بھارت نے پہلی بار اپنی فوجیں جموں و کشمیر کی سرزمین پر اتاریں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بھارت سے ’’انسٹرومنٹ آف ایکسیشن‘‘ یعنی معاہدۂ الحاق کی تفصیلات جاننے کی کوشش کی مگر بھارتی حکام نے اسے خفیہ قرار دے کر دکھانے سے انکار کر دیا۔ ڈاکٹر فائی نے کہا کہ معروف برطانوی مورخ الیسٹر لیمب سمیت متعدد عالمی مؤرخین نے بھی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے کبھی اس معاہدے کو حتمی اور قانونی نہیں مانا۔ ان کے مطابق، اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خود بھارت نے یکم جنوری 1948ء کو مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں پیش کیا، اور 15 جنوری 1948ء کو بھارتی نمائندے نے تسلیم کیا کہ کشمیر کا مستقبل عوامی استصوابِ رائے کے ذریعے طے کیا جائے گا۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے کہا کہ بھارت نے حالیہ برسوں میں جھوٹے الزامات اور فالس فلیگ آپریشنز کے ذریعے دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی سے جوڑا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا تنازعہ آج بھی اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل طلب ہے اور عالمی برادری کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حل کے لیے مؤثر کردار ادا کرے۔

جموں و کشمیر کمیونٹی انٹرنیشنل کے چیئرمین غلام نبی بٹ نے کہا کہ آزادی کی تحریک کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا کیونکہ یہ قربانی، ایمان اور استقامت سے جڑی جدوجہد ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کا حوصلہ آج بھی بلند ہے اور انشاءاللہ وہ دن ضرور آئے گا جب وہ آزادی کی نعمت حاصل کریں گے۔ انہوں نے اشتیاق ہمدانی اور تحریکِ کشمیر روس کے منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ ان کی تنظیم مستقبل میں بھی ایسے فکری و تحریکی پروگراموں میں بھرپور شرکت کرے گی۔

ڈاکٹر عابدہ رفیق نے کہا کہ عالمی اداروں کی قراردادیں محض بیانات تک محدود ہو چکی ہیں اور ان پر عمل درآمد کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عالمی عدالتوں تک پہنچایا جائے، عالمی سفارتی دباؤ بڑھایا جائے، اور ریسرچ و میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے کشمیر کا مقدمہ مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔

Advertisement

زبیر حسین، ممتاز صحافی اور سماجی رہنما (سویڈن) نے کہا کہ بھارت صحافت کو دبانے کے لیے جدید جاسوسی نظام استعمال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیگاسس جیسے سافٹ ویئر کے ذریعے صحافیوں کے فون اور ذاتی زندگی پر نگرانی کی جا رہی ہے جو آزادیٔ صحافت پر سنگین حملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہر صحافی بڑا نام نہیں رکھتا لیکن ہر شخص اپنے حصے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی کہانی اُن زبانوں میں بھی پہنچانی ہوگی جو اردو یا ہندی نہیں سمجھتے تاکہ عالمی رائے عامہ بیدار ہو۔

ایڈووکیٹ ریحانہ علی نے کہا کہ کشمیری خواتین جدوجہد آزادی میں صفِ اوّل میں ہیں اور ان کی قربانیاں ناقابلِ فراموش ہیں۔ سلمان خان نے کہا کہ کشمیری تحریک انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے، جبکہ اعجاز احمد شائق نے عالمی میڈیا پر زور دیا کہ وہ کشمیر کی حقیقی صورتحال دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ افشاں کیانی نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالیوں پر عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے، جب کہ سردار تیمور عزیز اور ساجدہ گیلانی نے کشمیری تارکین وطن سے اتحاد و یکجہتی کی اپیل کی۔

کانفرنس کے اختتام پر متفقہ طور پر چھ قراردادیں منظور کی گئیں جن میں 27 اکتوبر 1947ء کے بھارتی قبضے کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس دن کو ہر سال “یومِ سیاہ” کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا۔ کانفرنس نے بھارتی جیلوں میں قید تمام کشمیری سیاسی رہنماؤں کی بلا شرط رہائی کا مطالبہ کیا جن میں محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، مسرت عالم اور آسیہ اندرابی کے نام خصوصاً شامل تھے۔ اقوامِ متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت اور پاکستان دونوں پر دباؤ ڈالے تاکہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق آزادانہ استصوابِ رائے کے لیے سازگار حالات پیدا کیے جا سکیں۔ شرکائے کانفرنس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس نے پاکستانی عوام اور اوورسیز کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کو خراجِ تحسین پیش کیا اور اس حمایت کو آئندہ بھی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر دنیا بھر کے کشمیری تارکین وطن سے اپیل کی گئی کہ وہ حقِ خودارادیت کے ایک نعرے پر متحد ہوں تاکہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی آواز مزید مؤثر انداز میں بلند کی جا سکے۔


کانفرنس کے اختتام پر تمام مقررین نے پروگرام کے میزبان اشتیاق ہمدانی کو کامیاب اور شاندار میزبانی پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اشتیاق ہمدانی اور ان کی ٹیم نے جس جذبے اور پیشہ ورانہ انداز میں اس کانفرنس کا اہتمام کیا، وہ تحریکِ کشمیر کے لیے قابلِ فخر قدم ہے۔ مقررین نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کشمیری عوام کو آزادی، امن اور انصاف کی نعمت عطا فرمائے اور اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔