افغانستان میں انٹرنیٹ بند: 4 کروڑ 30 لاکھ افراد کا عالمی رابطہ منقطع
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
طالبان کی عبوری حکومت نے پورے افغانستان میں انٹرنیٹ سروسز مکمل طور پر بند کر دی ہیں، جس کے نتیجے میں فائبر آپٹک کنکشنز کاٹ دیے گئے اور تقریباً 4 کروڑ 30 لاکھ شہریوں کا دنیا سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق، اس اقدام کے ساتھ موبائل فون سروسز بھی شدید متاثر ہوئی ہیں، جس سے بینکنگ، تعلیم، صحت، اور روزمرہ مواصلات کا نظام مفلوج ہو گیا ہے۔ طالبان نے اس بندش کو “فحاشی اور غیر اخلاقی سرگرمیوں” کو روکنے کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے، لیکن عالمی برادری نے اسے “آزادی رائے پر حملہ” قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدام سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے حکم پر اٹھایا گیا، جو انٹرنیٹ کو “بدکاری کا ذریعہ” سمجھتے ہیں۔ تاہم، آزاد ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ جان بوجھ کر کی گئی بندش ہے، جو ستمبر 2025 سے صوبوں جیسے بلخ، ہرات، اور پروان میں مرحلہ وار شروع ہوئی تھی۔ 30 ستمبر کو ملک بھر میں مکمل بلیک آؤٹ نافذ ہو گیا، جس سے کابل ایئرپورٹ پر فلائٹس منسوخ ہوئیں اور شہری سرحدوں پر سگنل تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔
اس انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نے معاشی اور سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آن لائن بینکنگ اور ریمٹنس سروسز بند ہونے سے لاکھوں خاندان مالی مشکلات کا شکار ہیں، جبکہ آن لائن تعلیمی پلیٹ فارمز، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، مکمل طور پر معطل ہو گئے ہیں۔ ہسپتالوں اور امدادی تنظیموں کی رابطہ کاری بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایکس پر ہیش ٹیگز کے ذریعے شہری عالمی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ کچھ نے اسٹارلنک جیسے سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی درخواست کی ہے۔ اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ نے اسے “انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے فوری بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ طالبان کی “ڈیجیٹل تنہائی” کی پالیسی ہے، جو معلومات کے کنٹرول اور اپوزیشن کو دبانے کی کوشش ہے۔ اگر سروسز بحال نہ ہوئیں تو انسانی امداد، جو پہلے ہی 50% آبادی تک محدود ہے، مکمل طور پر رک سکتی ہے۔ شہریوں کی سرحدوں پر جمع ہونے کی رپورٹس ہیں، جہاں وہ پاکستانی یا ایرانی سگنلز کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔