ایران اور یورپی ممالک کے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر متفق
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ایران نے فرانس، جرمنی اور برطانیہ (یورپی تین یا ای 3) کے ساتھ آئندہ ہفتے سے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے “تسنیم” نے اتوار کو ایک باخبر ذریعے کے حوالے سے یہ اطلاع دی ہے۔ فی الحال مذاکرات کی تاریخ اور مقام کا تعین زیر غور ہے، تاہم یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بات چیت ایران اور تینوں یورپی ممالک کے نائب وزرائے خارجہ کی سطح پر ہوگی۔ یاد رہے کہ فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل بارو نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ اگر اگست کے آخر تک کوئی جوہری معاہدہ نہ ہوا تو یورپی تین ممالک اقوام متحدہ کی وہ پابندیاں دوبارہ نافذ کر دیں گے جو دس برس قبل ختم کی گئی تھیں۔ ان میں اسلحہ، بینکاری نظام اور جوہری آلات پر عالمی پابندیاں شامل ہیں۔ فرانسیسی وزیر کا کہنا تھا کہ “ہمیں مکمل حق حاصل ہے کہ ہم وہ عالمی پابندیاں دوبارہ لاگو کریں جو جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے تحت 2015 میں ہٹائی گئی تھیں۔” یہ پابندیاں ‘اسنیپ بیک میکانزم’ کے ذریعے فوری طور پر بحال کی جا سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ معاہدہ ایران، ای 3، روس، چین، یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان طے پایا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں امریکہ کو اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یورپی ممالک اور یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ دھمکی آمیز زبان ترک کریں اور “ذمہ دارانہ رویہ” اپنائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ای 3 کے پاس اسنیپ بیک میکانزم کے استعمال کا نہ تو کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی قانونی۔
عراقچی نے ٹیلیگرام پر جاری بیان میں کہا یہ امریکہ تھا جس نے 2015 میں یورپی یونین کی نگرانی میں طے پانے والے معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، نہ کہ ایران۔ یہی امریکہ جون میں مذاکرات کی میز چھوڑ کر فوجی راستہ اپنانے کی طرف گیا۔ واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کی ثالثی میں جوہری بات چیت گزشتہ ماہ اس وقت ناکام ہو گئی جب 13 جون کو اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ایران جوہری بم تیار کر رہا ہے — جس کی ایران نے سختی سے تردید کی۔ اس کے بعد امریکہ نے 22 جون کو ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کر کے صورتحال کو مزید کشیدہ کر دیا۔