ایران کی پاک سعودی دفاعی معاہدے میں شمولیت کی خواہش
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
ایرانی پاسداران انقلاب کے سینئر کمانڈر اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر میجر جنرل رحیم صفوی نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حال ہی میں طے پانے والے مشترکہ دفاعی معاہدے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران بھی اس معاہدے کا حصہ بن جائے تو یہ خطے کی سلامتی کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوگا۔ صفوی نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو باہمی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے مشترکہ چیلنجز، خاص طور پر اسرائیلی جارحیت اور امریکی اثر و رسوخ، کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک متحدہ سکیورٹی بلاک تشکیل دینا چاہیے۔ تہران میں ایرانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل رحیم صفوی، جو پاسداران انقلاب کے سابق ڈپٹی کمانڈر بھی رہ چکے ہیں، نے کہا، “پاکستان اور سعودی عرب کا مشترکہ دفاعی معاہدہ خوش آئند ہے اور اس سے خطے میں استحکام کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ ایران بھی اس میں شامل ہو جائے، کیونکہ اسلامی دنیا کو اب ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے متحد ہونا چاہیے۔” صفوی نے مزید کہا کہ امریکا کا علاقائی اثر و رسوخ کمزور ہو رہا ہے اور وہ اب ایشیا پیسفک کی طرف متوجہ ہو رہا ہے، جس سے خلیج اور جنوبی ایشیا میں سلامتی کے خلا کو بھرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ایک علاقائی اسلامی سکیورٹی بلاک کی تشکیل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے، جو نہ صرف اسرائیلی حملوں جیسے حالیہ قطر پر فضائی حملے کو روک سکے بلکہ خطے کی خودمختاری کو بھی یقینی بنائے۔ صفوی کی یہ بات ایک ایسے وقت پر آئی ہے جب ایران اور سعودی عرب کے درمیان 2023 میں چین کی ثالثی سے بحال ہونے والے تعلقات مزید مضبوط ہو رہے ہیں، اور ایران نے پہلے ہی اس دفاعی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے۔
یاد رہے کہ 17 ستمبر 2025 کو ریاض کے الیمامہ محل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے “اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدہ” (SMDA) پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت، کسی ایک ملک پر بیرونی حملے کو دونوں ممالک کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا، جو دونوں ملکوں کی 80 سالہ تاریخی شراکت داری کو رسمی شکل دیتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ دفاعی تعاون کو فروغ دے گا اور خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنائے گا۔ اس معاہدہ کا پس منظر اسرائیل کے 9 ستمبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ پر فضائی حملہ ہے، جس نے خلیجی ممالک میں امریکی سلامتی کی ضمانتوں پر شکوک و شبہات پیدا کر دیے۔ ماہرین کے مطابق، یہ معاہدہ سعودی عرب کی طرف سے امریکہ پر انحصار کم کرنے اور پاکستان کی جوہری صلاحیت کو استعمال کرنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے، اگرچہ جوہری شمولیت کی تفصیلات ابھی واضح نہیں۔ سعودی ایک سینئر حکام نے روئٹرز کو بتایا کہ “یہ جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی ذرائع کو شامل کرتا ہے۔”
دوسری طرف، پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ چوہدری اسحاق ڈار نے لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے بعد کئی دیگر ممالک بھی پاکستان کے ساتھ ایسے دفاعی معاہدے کرنا چاہتے ہیں۔ ڈار نے کہا، “یہ قبل از وقت ہے کہ کچھ کہا جائے، لیکن اس پیش رفت کے بعد کئی ممالک ایسی ہی ترتیب چاہتے ہیں۔” انہوں نے زور دیا کہ ایسے معاہدے راتوں رات نہیں ہوتے، بلکہ سعودی عرب والے معاہدے کو بھی ماہوں لگے۔
ڈار کا یہ بیان پاکستان کی بڑھتی ہوئی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں چین، ترکی اور اب سعودی عرب جیسے اتحادی پاکستان کو علاقائی توازن کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے الجزائر ٹی وی کو بتایا کہ خلیج تعاون کونسل کے دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہونے پر غور کر رہے ہیں۔
یہ پیش رفت خطے کی جغرافیائی سیاست کو تبدیل کر رہی ہے۔ بی بی سی کے مطابق، ایران کے صدر مسعود پژشکیان نے بھی اس معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلم ممالک کے درمیان سیاسی، سکیورٹی اور دفاعی تعاون کی ابتداء ہے۔ تاہم، بھارت اسے “بڑا دھچکا” قرار دے رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب بھارت کا بڑا شراکت دار ہے اور یہ معاہدہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ کی سلامتی میں گہرا دھکیل رہا ہے۔
ماہرین جیسے مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ “تاریخی اور بروقت” ہے، جو اسرائیلی جارحیت، امریکی غداری اور مئی 2025 کی انڈیا پاکستان لڑائی کے تناظر میں اہم ہے۔ آسٹرین انسٹی ٹیوٹ کی ویلینا چاکارووا نے اسے “چونکا دینے والی جغرافیائی سیاسی پیش رفت” قرار دیا۔ سعودی محقق مبارک العطیٰ کا خیال ہے کہ یہ سعودی پاکستان تعلقات کی فطری توسیع ہے۔
خواجہ آصف نے ابتدائی طور پر جوہری صلاحیت کی شمولیت کا اشارہ دیا تھا، لیکن بعد میں اسے رد کر دیا۔ روئٹرز کے مطابق، سعودی حکام نے کہا کہ “جوہری ہتھیار معاہدے کے ریڈار پر نہیں”، مگر ابہام برقرار ہے۔ چاتھم ہاؤس کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ سعودی عرب کو جوہری تحفظ کی طرف لے جا سکتا ہے، خاص طور پر ایران کی جوہری سرگرمیوں کے تناظر میں۔ ایک سعودی افسر نے کہا، “یہ حملے کے خلاف روک تھام کو مضبوط کرے گا – ایک پر حملہ دونوں پر حملہ ہے۔” یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی بلکہ معاشی طور پر بھی اہم ہے، کیونکہ سعودی عرب پاکستان کی فوجی تربیت اور ہتھیاروں کی فراہمی میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
رحیم صفوی کی تجویز اور اسحاق ڈار کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے میں ایک نئی دفاعی ترتیب ابھر رہی ہے۔ اگر ایران شامل ہو جائے تو یہ سعودی ایران کشیدگی کو ختم کر سکتا ہے اور اسرائیل کے لیے بڑا چیلنج بنے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ امریکی غلبے کے خاتمے اور علاقائی خودمختاری کی جانب ایک سنگ میل ہے۔ کیا اسلامی دنیا اس موقع سے فائدہ اٹھائے گی؟ وقت بتائے گا، مگر یہ پیش رفت خطے کے مستقبل کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔