
کیا 2026 تیسری عالمی جنگ کا سال ہے؟
تجزیہ: اشتیاق ہمدانی، ماسکو
پولینڈ میں حالیہ دنوں ایک غیر معمولی اور تشویشناک پیش رفت سامنے آئی ہے۔ شمال مشرقی پولینڈ کے شہر مرونگوو میں شہریوں کو باقاعدہ طور پر ایسے بروشرز تقسیم کیے جا رہے ہیں جن میں ممکنہ جنگی حالات میں طرزِ عمل، ابتدائی طبی امداد اور سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی ہدایات درج ہیں۔
ان ہدایتی کتابچوں میں شہریوں کو بتایا گیا ہے کہ اگر لڑائی، بمباری یا کسی ہنگامی عسکری صورتحال کا سامنا ہو تو وہ کس طرح خود کو محفوظ رکھیں، زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کیسے دیں اور کس نوعیت کے حفاظتی اقدامات اختیار کریں۔
یہ محض ایک انتظامی یا احتیاطی قدم نہیں بلکہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ یورپ کے بعض ممالک ممکنہ بڑے تصادم کے خدشے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
اصل سوال یہی ہے کہ آخر یورپ خود کو کس کے لیے تیار کر رہا ہے؟
اگر ہم موجودہ حالات کا غیر جانبدار تجزیہ کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یورپ خاموشی سے ویسی ہی فضا میں داخل ہو رہا ہے جیسی دوسری عالمی جنگ سے قبل نازی جرمنی میں پیدا کی گئی تھی۔ اُس وقت بھی عوام کو یہ باور کرایا گیا تھا کہ جنگ ناگزیر ہے، دفاعی تیاری لازم ہے، اور دشمن کو کمزور سمجھنا ایک معمولی معاملہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سوچ نے پورے یورپ کو راکھ میں بدل دیا۔

یورپ شاید یہ بھول چکا ہے کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف شہر تباہ ہوتے ہیں بلکہ قومیں دہائیوں پیچھے چلی جاتی ہیں۔ معاشی نظام برباد، سماجی توازن درہم برہم اور نسلیں نفسیاتی زخموں کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
2014 کے بعد سے یورپ کی سب سے بڑی اور خطرناک اسٹریٹجک غلطی یہ رہی ہے کہ اس نے روس کو مسلسل کم تر سمجھا۔ یوکرین بحران کے پس منظر میں کیے گئے فیصلے، معاہدوں کی خلاف ورزیاں، اور نیٹو کی مسلسل توسیع نے کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے مزید بڑھایا۔
یورپ یہ فرض کرتا رہا کہ روس دباؤ میں آ کر پیچھے ہٹ جائے گا، مگر یہ اندازہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔
یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آج کا روس 1945 کا روس نہیں۔ آج روس ایک وسیع جغرافیہ، بے پناہ قدرتی وسائل، مضبوط عسکری صلاحیت اور اپنی عوام کے لیے پہلے سے کیے گئے داخلی انتظامات کے ساتھ ایک بالکل مختلف ریاست ہے۔
اگر اس بار تاریخ نے خود کو دہرایا اور روس کو عسکری ردعمل پر مجبور کیا گیا تو یہ تصور کرنا کہ یورپ محفوظ رہے گا، ایک خطرناک خوش فہمی ہوگی۔
اگر اس بار سرخ فوج 1945 کی طرح یورپ میں داخل ہوئی تو یہ وہ جنگ نہیں ہوگی جس میں “ایک پتہ بھی نہ ٹوٹے”۔ جدید جنگیں انفراسٹرکچر، معیشت، توانائی نظام اور شہری زندگی کو براہِ راست نشانہ بناتی ہیں۔ ایسی صورت میں یورپ تہس نہس ہو سکتا ہے۔
تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگ کے وقت حکمران طبقہ محفوظ راستے تلاش کر لیتا ہے۔ طاقتور ممالک، خاص طور پر امریکہ، خود کو تنازع سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ اصل قیمت عام عوام کو چکانا پڑتی ہے۔
یورپی عوام بے گھر ہوں گے، دربدر ہوں گے، اور وہی یورپ جو آج ایشیا اور افریقہ کے مہاجرین کا مسکن بنا ہوا ہے، کل خود مہاجرین پیدا کرے گا۔
آج ایشیا اور افریقہ کے لوگ یورپ کا رخ کر رہے ہیں، مگر اگر یہ جنگی جنون جاری رہا تو کل یورپی عوام پناہ کی تلاش میں ایشیا اور افریقہ کی جانب دیکھیں گے۔ دوسری عالمی جنگ کی تباہی دوبارہ دہرائی جا سکتی ہے، مگر اس بار اس کی شدت کہیں زیادہ ہوگی۔
یورپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وہ پہلے ہی توانائی بحران، معاشی دباؤ اور اندرونی سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ ایسے میں ایک بڑی جنگ کو دعوت دینا خود اپنے وجود کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
یہ تحریر کسی دھمکی یا خوف پھیلانے کی کوشش نہیں، بلکہ ایک سنجیدہ، فکری اور تاریخی انتباہ ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ یورپ طاقت، دباؤ اور عسکری غرور کے بجائے عقل، سفارت کاری، عوامی روابط اور امن کے راستے کو اپنائے۔
کیونکہ جب جنگ شروع ہوتی ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتی کہ قصور کس کا تھا —
وہ صرف لاشیں گنتی ہے، شہر جلاتی ہے، اور تاریخ میں شرمندگی کے باب چھوڑ جاتی ہے۔