غزہ جانے والے امدادی جہاز کو اسرائیل نے روک لیا، گرتھا تھنبرگ بھی گرفتار
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
بحرِ روم کے راستے غزہ کی طرف جانے والے امدادی جہاز پر اسرائیلی کارروائی، گرتھا تھنبرگ سمیت فعالین گرفتار… آٹھ جون کی رات اسرائیلی بحریہ نے بحیرہ روم کے بین الاقوامی پانیوں میں سفر کرنے والے امدادی جہاز “مڈلین” کو روکا، جو غزہ کے لیے دارالحکومت سیسلی سے روانہ ہوا تھا۔ اس جہاز پر ہیومن ہمدردی کی اشیاء، بچے کے دودھ، خوراک، طبی کٹ اور پانی صاف کرنے کے آلات سمیت مختلف امدادی سامان تھا۔ جہاز میں کل بارہ فعالین سوار تھے، جن میں معروف ماحولیاتی کارکن گرتھا تھنبرگ اور فرانسیسی یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما ہسن شامل تھیں ۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے بیان دیا کہ یہ جہاز اسرائیل کی طرف منتقل کیا گیا ہے اور سوار تمام افراد محفوظ ہیں۔ وزارت کے مطابق یہ کارروائی بین الاقوامی قانون اور غزہ کے سمندری محاصرے کے تحت جائز تھی، تاہم فعالین نے اسے اغوا قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ ان پر ایک سفید مادّہ چھڑکا گیا، اور ان کے موبائل فون جہاز سے پھینکوا دیے گئے ۔ فعالین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی عملے نے جہاز کو “زبردستی روکا” اور اسے “اغواء” کر کے اسرائیلی ساحل اشدود لے جایا گیا ۔
اس واقعے کے نتیجے میں عالمی ردعمل تیز ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی حقوقِ انسانی تنظیموں نے تمام سواروں کو فوری طور پر رہا کرنے اور ان کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے مڈلین جہاز کو یک سیاسی پروپیگنڈا کا حصہ قرار دیا گیا، تاہم فعالین کا مؤقف ہے کہ یہ مہم غزہ پر صرف امداد پہنچانے کے ساتھ ساتھ سمندری محاصرے کو چیلنج کرنے کے لیے بھی تھی ۔
گرتھا تھنبرگ نے اپنی مہم کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا کہ “ہم نے فلسطینیوں سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کی نیت سے یہ سفر شروع کیا”، جس کا مقصد غزہ میں جاری انسانی بحران کی عالمی توجہ حاصل کرنا تھا ۔ یاد رہے کہ اس جہاز کی روانگی اس سے قبل منعقدہ ایک ناکام کوشش کے بعد کی گئی تھی، اور اس مہم کو ۲۰۱۰ کی معروف مَوی مرمرا واقعے سے تشبیہ دی جا رہی ہے ۔
مذکورہ واقعہ نہ صرف موجودہ انسانی ہنگامی صورتحال پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ اسرائیل کے سمندری محاصرے کی قانونی، سیاسی اور اخلاقی جہتوں کو بھی منظرِ عام پر لاتا ہے۔ امدادی کیریئرز اور فعالین کے لیے نئے خطرات اور عالمی سطح پر احتجاجی رد عمل کے امکانات اسکے ساتھ بڑھ گئے ہیں۔