اسرائیل نے پیٹریاٹ میزائل یوکرین کو دے کر سنگین غلطی کردی، روس کا سخت انتباہ
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
روس نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ یوکرین کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم کی فراہمی ایک سنگین اشتعال انگیزی ہے، جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے اپنے سخت بیان میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے امریکہ یا کسی اور نیٹو ملک کے دباؤ میں آ کر یوکرین کو دفاعی میزائل فراہم کیے ہیں، تو وہ دانستہ طور پر روس کے ساتھ دشمنی کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے۔ روسی حکام کے مطابق یوکرین کو دیے گئے یہ میزائل نہ صرف روسی افواج کے لیے خطرہ ہیں بلکہ اس اقدام سے مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے مفادات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ماسکو نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس کے ردِعمل میں علاقائی سطح پر اسرائیل کے لیے سفارتی و دفاعی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔
دوسری جانب، اسرائیلی حکام نے اس اقدام کو صرف “دفاعی نوعیت” کا قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد صرف یوکرین کی شہری آبادی کو فضائی حملوں سے بچانا ہے، نہ کہ روس کے خلاف جارحیت۔ تاہم ماسکو کا مؤقف ہے کہ کسی بھی ہتھیار کی فراہمی، خواہ وہ دفاعی ہو یا حملہ آور، ایک متحارب ملک کو دی جائے تو وہ جنگ میں براہِ راست مداخلت کے مترادف سمجھی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ میں روس کے مستقل مندوب واسیلی نیبینزیا نے گزشتہ سال واضح انتباہ جاری کیا تھا کہ اگر اسرائیل نے یوکرین کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم فراہم کیے تو اس کے “سیاسی نتائج” سامنے آئیں گے۔ اب روسی حکام اس مؤقف کو مزید سخت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی یہ کارروائی جنگ کو مزید بھڑکانے کے مترادف ہے اور روس اسے ایک دشمنانہ اقدام تصور کرے گا۔
ماسکو کا مؤقف ہے کہ یوکرین کو بیرونی ہتھیاروں کی فراہمی صرف لڑائی کو طول دیتی ہے اور روس کے عسکری مقاصد کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ روسی قیادت بارہا اس بات پر زور دیتی آئی ہے کہ اگر مغربی ممالک واقعی جنگ بندی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنا بند کرنا ہوگا۔
کریملن نے واضح کر دیا ہے کہ مغربی ہتھیاروں کی ترسیل روکے بغیر کسی بھی جنگ بندی یا مذاکرات کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ اسرائیل کی جانب سے پیٹریاٹ میزائل کی فراہمی، روس کے نزدیک، اس عالمی صف بندی کا حصہ ہے جو ماسکو کے خلاف بنائی جا رہی ہے، اور اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق، اگر اسرائیل نے اس فیصلے پر عمل درآمد کیا تو روس نہ صرف سفارتی سطح پر سخت اقدامات کرے گا بلکہ ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ میں بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جہاں روس کئی اہم فریقین کے ساتھ گہرے روابط رکھتا ہے۔