اسرائیل نے روس کے ذریعے ایران کو تصادم سے گریز کی یقین دہانی کرائی، پوتن

Putin Putin

اسرائیل نے روس کے ذریعے ایران کو تصادم سے گریز کی یقین دہانی کرائی، پوتن

ماسکو صداۓ روس)
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل نے روس کے ذریعے ایران کو امن اور تصادم سے گریز کا پیغام بھیجا ہے۔ صدر پوتن کے مطابق ویسٹ یروشلم نے ماسکو سے درخواست کی کہ وہ تہران تک یہ پیغام پہنچائے کہ اسرائیل خطے میں امن کا خواہاں ہے اور کسی قسم کے تنازع یا محاذ آرائی میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ پوتن نے یہ بات تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں منعقدہ روس–وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کے موقع پر کہی۔ انہوں نے کہا کہ ماسکو اس وقت ایران کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے اور ساتھ ہی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) کے ساتھ ایران کے “تعمیراتی تعاون” کو بحال کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔ صدر پوتن کے مطابق اسرائیل روس اور ایران کے باہمی تعلقات پر انحصار کرتے ہوئے تہران کی قیادت تک اپنے پیغامات پہنچا رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہم اسرائیل کے ساتھ اعتماد پر مبنی رابطوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اور ہمیں اسرائیلی قیادت کی جانب سے ایسے پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی مزید کشیدگی نہیں چاہتے اور تصادم سے گریز کے خواہاں ہیں۔

پوتن نے زور دیا کہ روس کا ماننا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تمام مسائل کا واحد حل سفارت کاری ہے۔ روس اور اسرائیل کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے صدر پوتن نے بتایا کہ چند روز قبل ان کی اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی، جس میں غزہ کی صورتحال، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امن تجاویز، ایران کا جوہری پروگرام، اور شام میں استحکام پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ روس نے اسرائیل اور ایران کے درمیان براہِ راست مکالمہ شروع کرنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔ پوتن کے مطابق، جولائی میں انہوں نے نیتن یاہو سے کہا تھا کہ ماسکو “ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے کسی مذاکراتی حل کے حصول میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔” یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب جون میں اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 دن تک باہمی فضائی حملے ہوئے تھے۔ ان جھڑپوں کے فوراً بعد روس ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے دونوں فریقوں سے براہِ راست رابطہ کر کے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی۔
پوتن کے بقول، اس دوران ماسکو نے تمام فریقین کے لیے کئی “مصالحانہ فریم ورک” بھی تجویز کیے تھے تاکہ خطے میں کسی بڑے تنازع سے بچا جا سکے۔

Advertisement