جاپان میں ریچھوں کے مہلک حملے: فوج شمالی پہاڑی علاقوں میں تعینات
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
جاپان کی حکومت نے ملک کے شمالی پہاڑی علاقوں میں ریچھوں کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد فوج کو مدد کے لیے طلب کر لیا ہے۔ فوجی دستے بدھ کے روز ضلع اکیتا کے شہر کازونو پہنچے جہاں مقامی حکام کئی ہفتوں سے عوام سے کہہ رہے تھے کہ وہ جنگلات میں جانے سے گریز کریں، اندھیرے کے بعد گھروں سے نہ نکلیں اور ریچھوں کو دور رکھنے کے لیے اپنے ساتھ گھنٹیاں رکھیں۔ جاپان کی وزارت ماحولیات کے مطابق اپریل سے اب تک ریچھوں کے ایک سو سے زائد حملوں میں 12 افراد ہلاک ہو چکے ہیں — جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔ ان ہلاکتوں میں سے دو تہائی اکیتا اور اس کے پڑوسی ضلع ایواتے میں ہوئی ہیں۔ کازونو کے میئر شنجی ساساموتو نے فوجیوں سے ملاقات کے بعد کہا کہ شہری روزانہ خطرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ صورتحال ان کے طرزِ زندگی کو متاثر کر رہی ہے — لوگ باہر جانا یا تقریبات منعقد کرنا چھوڑ چکے ہیں۔ فوجی اہلکار جدید نقشوں، حفاظتی جیکٹوں اور جیپوں سے لیس ہیں۔ وہ بڑے پنجروں کے جال نصب کرنے اور ان کی نگرانی میں مدد کریں گے، جبکہ ریچھوں کو ہلاک کرنے کا کام تربیت یافتہ شکاری انجام دیں گے۔ اکیتا میں ریچھوں کی نقل و حرکت میں اس سال چھ گنا اضافہ ہوا ہے — اب تک آٹھ ہزار سے زائد مشاہدات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ گورنر نے پچھلے ہفتے جاپان کی سیلف ڈیفنس فورس سے مدد کی باضابطہ درخواست کی تھی۔ فوجی اہلکار کازونو کے بعد اوڈاتے اور کیتااکیتا کے علاقوں میں بھی بھیجے جائیں گے، اور یہ آپریشن ماہِ نومبر کے آخر تک جاری رہے گا۔
حملے سپر مارکیٹ اور گرم پانی کے مقام پر بھی
حالیہ ہفتوں میں ریچھوں نے ایک سپر مارکیٹ کے اندر گاہکوں پر حملہ کیا، ایک سیاح کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی مقام کے قریب بس اسٹاپ پر زخمی کیا، اور ایک گرم چشمے کے ریزورٹ میں ملازم کو بُری طرح مجروح کیا۔ کئی اسکولوں کو عارضی طور پر بند بھی کرنا پڑا ہے کیونکہ ریچھ ان کے احاطے میں گھومتے دیکھے گئے۔ ماہرین کے مطابق اکتوبر اور نومبر میں ریچھوں کے حملے عروج پر ہوتے ہیں کیونکہ وہ سردیوں کی نیند (ہائبرنیشن) سے قبل خوراک جمع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جاپان کے سیاہ ریچھ عام طور پر 130 کلوگرام تک وزن رکھتے ہیں، جبکہ شمالی جزیرے ہوکا ئیدو کے بھورے ریچھ 400 کلوگرام تک کے ہو سکتے ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ جاپان نے جنگلی جانوروں کے کنٹرول کے لیے فوج کو تعینات کیا ہو۔ ماضی میں بھی فوجی اہلکار ہرنوں کی نگرانی کے لیے فضائی مدد فراہم کر چکے ہیں، جبکہ 1960 کی دہائی میں سی لائینز کو مچھلی کے ذخائر کے تحفظ کے لیے مارا گیا تھا۔ حکومت رواں ماہ کے آخر میں ریچھوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع ہنگامی منصوبہ پیش کرے گی، جس میں مزید لائسنس یافتہ شکاریوں کی بھرتی بھی شامل ہے۔ نائب چیف کابینہ سیکریٹری کیئی ساٹو کے مطابق ریچھوں کے انسانی آبادی میں داخل ہونے کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں، اس لیے ہم ان کے خلاف اقدامات میں کسی تاخیر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔