روس کی امریکہ کو جوہری بیان بازی سے باز رہنے کی سخت تنبیہ
ماسکو(صداۓ روس)
کریملن نے امریکہ کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق بیانات پر سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی امن و سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر ایسے حساس معاملات پر غیر ذمہ دارانہ زبان اختیار کرنا خطرناک ہے۔ روسی حکام نے زور دے کر کہا ہے کہ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک جوہری معاملات پر بیان بازی میں سنجیدگی اور احتیاط کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اس طرزِ عمل سے عالمی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ردِعمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دو امریکی جوہری آبدوزوں کو “مناسب خطوں” میں ازسرِ نو تعینات کر دیا گیا ہے۔ ان کا یہ بیان سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” کے ذریعے سامنے آیا، جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ روسی صدارتی ترجمان دیمتری پیسکوف نے ٹرمپ کے اعلان کو اشتعال انگیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ، “امریکی آبدوزیں پہلے ہی سے جنگی گشت پر ہوتی ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، تاہم ان کی عوامی سطح پر اس طرح تشہیر غیر ذمے دارانہ اور خطرناک ہے۔”
پیسکوف نے مزید کہا کہ روس ہمیشہ جوہری معاملات پر نہایت سنجیدہ اور ذمہ دارانہ مؤقف اپناتا ہے، اور عالمی برادری کو بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہلکے یا اشتعال انگیز بیانات نہ صرف امن کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان سے غیر متوقع تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ روسی حکومت نے زور دیا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی “جوہری عدم پھیلاؤ” کے اصولوں کا احترام کریں اور ایسی کسی بھی بیان بازی سے اجتناب کریں جو عالمی سطح پر خوف و ہراس یا کشیدگی پیدا کرے۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو ہر وقت “مکمل طور پر تیار” رہنا چاہیے اور اسی لیے یہ قدم اُٹھایا گیا۔ تاہم وائٹ ہاؤس اور پنٹاگون کی جانب سے آبدوزوں کی تعیناتی کے مقام یا نوعیت سے متعلق کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، حالیہ دنوں میں امریکہ اور مغرب کی جانب سے بڑھتی ہوئی جوہری بیان بازی نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو ایک خطرناک موڑ کی طرف دھکیل سکتی ہے، اور ایسے میں روس کا محتاط مگر واضح ردِعمل عالمی توازن کے لیے اہم حیثیت رکھتا ہے۔