لاوروف کا یوکرین پر امن مذاکرات سے راہِ فرار اختیار کرنے کا الزام
ماسکو (صداۓ روس)
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ استانبول مذاکراتی فارمیٹ کو ترک کرکے امن کی کوششوں کو ناکام بنا رہا ہے، حالانکہ ماسکو اب بھی اس فارمیٹ کو ایک مؤثر ذریعہ سمجھتا ہے۔ انہوں نے یہ بات شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ روسی وزیر خارجہ کے مطابق، رواں سال ترکی میں دونوں ممالک کے وفود کے درمیان دو براہِ راست ملاقاتیں ہو چکی ہیں، جن کے دوران فریقین نے امن معاہدے کے حوالے سے ابتدائی مسودوں کا تبادلہ بھی کیا تھا اور قیدیوں کے تبادلوں پر مزید اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا۔ تاہم، کیف کی جانب سے کسی تیسرے مرحلے کی تجویز کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
لاوروف نے یوکرین کے ان حالیہ بیانات کو مسترد کر دیا جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ استنبول فارمیٹ صرف انسانی ہمدردی کے معاملات تک محدود تھا اور اب غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ انہوں نے اسے “مذاکرات سے انکار اور اپنے ہی شہریوں سے بے اعتنائی” قرار دیا، اور یاد دلایا کہ کیف نے مرنے والے یوکرینی فوجیوں کی لاشوں کی واپسی کے عمل میں بھی روڑے اٹکائے۔ روسی وزیر خارجہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یوکرین کے وفد کی نئی ترتیب کی جا رہی ہے، کیونکہ استنبول مذاکرات میں یوکرین کے وفد کی قیادت کرنے والے سابق وزیر دفاع رستم عمروف کو امریکہ میں یوکرینی سفیر تعینات کیا جا رہا ہے۔
سرگئی لاوروف نے استنبول میں 2022 میں ہونے والے مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ دونوں فریقین کے مؤقف مختلف تھے، مگر اس کے باوجود سیاسی تصفیے کے بنیادی اصولوں پر اتفاق ممکن ہوا تھا۔ ان کے بقول، یہ معاہدہ یوکرین کو سائن کرنا تھا، مگر برطانیہ اور غالباً امریکہ کی جانب سے کیف کو اسے مسترد کرنے کی ہدایت دی گئی، جس سے سفارتی کوششوں کو شدید نقصان پہنچا۔ انہوں نے مغربی ممالک پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کر کے جنگ کو طول دیا اور مذاکرات کے تمام امکانات کو سبوتاژ کیا۔ یوکرین اور اس کے مغربی حمایتیوں کی جانب سے غیر مشروط جنگ بندی کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئے لاوروف نے خبردار کیا کہ کیف اس وقفے کو از سرِ نو صف بندی اور اسلحہ جمع کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
روس کی جانب سے پیش کیے گئے جنگ بندی کے مسودے کے مطابق، یوکرین کو یا تو ان علاقوں سے اپنی افواج واپس بلانا ہوں گی جنہیں روس اپنا حصہ قرار دیتا ہے، یا پھر نئی بھرتیوں اور مغربی ہتھیاروں کی ترسیل کو معطل کرنا ہو گا۔ آخر میں لاوروف نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس کی فوجی کارروائیاں صدر کے منظور شدہ منصوبے کے مطابق جاری رہیں گی، جن کا مقصد قومی مفادات کا تحفظ اور یوکرین میں موجود روسی نسل یا روسی بولنے والے شہریوں کی حفاظت ہے۔