پاکستان کے شمالی علاقوں میں آج بھی کئی مقامات دریافت کے منتظر
اسلام آباد (صداۓ روس)
پاکستان کے شمالی علاقوں میں جہاں ایک طرف حسین وادیاں، برف پوش پہاڑ اور نیلگوں دریا دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، وہیں دوسری جانب کئی ایسے علاقے آج بھی موجود ہیں جو سیر و سیاحت، سائنسی تحقیق اور تاریخی کھوج کے لحاظ سے مکمل طور پر دریافت نہیں ہو سکے۔ ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے سنگم پر واقع ان پہاڑی سلسلوں میں بعض بلند و بالا درے، گلیشیئرز اور وادیاں اب بھی نقشہ بندی سے باہر ہیں، جن تک عام انسان کی رسائی نہایت دشوار ہے۔
دیامر، استور، داریل، تانگیر، بروغل اور یارخون جیسے مقامات اپنی فطری خوبصورتی اور قدرتی وسائل کے باوجود سائنسی و آثارِ قدیمہ کی ٹیموں کی توجہ سے محروم رہے ہیں۔ ان علاقوں میں نایاب جنگلی حیات، پرندے، اور نباتات پائے جاتے ہیں جن کی کوئی مکمل دستاویز موجود نہیں۔ اس کے علاوہ مانسہرہ، کوہستان اور گلگت بلتستان کے کئی پہاڑی دیہات ایسے ہیں جہاں کے رسم و رواج اور زبانیں جدید تحقیق کی منتظر ہیں۔
ماہرین کے مطابق ان علاقوں کے غیر دریافت رہنے کی بڑی وجوہات میں دشوار گزار راستے، موسمی شدت، سیاحتی سہولیات کی کمی اور حکومتی عدم دلچسپی شامل ہیں۔ ان میں کئی ایسے مقام بھی ہیں جہاں قدیم تہذیبوں کے آثار جیسے بدھ مت، شمن ازم یا قبل از اسلام ثقافتوں کے نشان موجود ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان آثار کی باقاعدہ کھدائی یا مطالعہ نہ ہونے کے باعث یہ خزانے آج بھی زمین کی تہہ میں چھپے ہوئے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ پاکستان کی حکومت، تحقیقی ادارے اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ ان کم دریافت شدہ خطوں کی جانب سنجیدہ توجہ دیں تاکہ نہ صرف ملک کی تاریخ کو مزید روشنی ملے بلکہ سیاحت اور تعلیم کے نئے دروازے بھی کھل سکیں۔