Connect with us

Uncategorized

سوہنی دھرتی اللہ رکھے…….استحکام پاکستان اور ہماری زمہ داریاں

Published

on

سوہنی دھرتی اللہ رکھے.......استحکام پاکستان اور ہماری زمہ داریاں

اشتیاق ہمدانی / ماسکو نامہ

پاکستان کے پہلے مسلم ایٹمی ملک ہونے پر ساری دنیا میں 90 کی دھائی سے جو صف ماتم بچھے ہوئی ہے بدقسمتی کے ساتھ کئی مسلم ممالک بھی اس میں شریک ہیں. اسی وجہ سے انہوں نے پاکستان میں پہلے دہشت گردی اور اس کے بعد خانہ جنگی کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا. فورسز نے بے پناہ قربانیاں دے کر دہشت گردی کو ختم کیا ہے۔ پوری قوم مسلح فورسز اور سکیورٹی اداروں کی قربانیوں کو تسلیم کرتی ہے۔ بے مثال قربانیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوچکا ہے اور امن بحال ہے۔ افغانستان میں امریکی آمد کے بعد ہماری سرزمین بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں آئی جس سے نہ صرف ہماری معیشت کا بیڑہ غرق ہوا بلکہ جانی و مالی نقصان الگ اٹھانا پڑا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کو 125 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ مگر ہمارے جوانوں نے ہمت نہیں ہاری. دہشت گردی کی اس جنگ میں فوج کے ساتھ پاکستان کی عوام ہو یا خفیہ ایجنسیاں یا پھر پولیس سب اداروں نے یک جان ہوکر قربانیاں دی ہیں. بھارت اسرائیل اس کھیل میں پیش پیش رہے، آخر کار جب شکست ہوئی تو انھوں نے پاکستان میں خانہ جنگی کا وہ کھیل کھیلنے کی کوشش کی جو وہ عرب ممالک سمیت اس سے قبل دنیا کے بیشتر ممالک میں یا تو کھیل چکے ہیں یا کھیل رہے ہیں.

ان طاقتوں نے جو ملک تباہ کئے تاریخ اٹھا کر دیکھیں سب کی طریقہ واردات ایک ہی تھا۔ کہ اس ملک کے لوگوں کی کسی کمزوری کو ہوا دیکر اپنی فوج اور اداروں کے خلاف کر دیا جائے۔ اگر آپ کو یاد ہو کہ 20اکتوبر2011ء کے دن معمر قذافی کو لیبیا نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کی ملیشیا نے فرانسیسی انٹیلی جنس کی سرگرم حمایت کے ساتھ پکڑ کر گولی مار کے قتل کر دیا۔ تیونس اور مصر میں انقلابی واقعات،’’عرب بہار‘‘ کے لیبیا پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ فروری 2011ء میں بن غازی میں عوامی سرکشی ابھری جسے فوج نے کچل دیا۔ قذافی حکومت کی احتجاجیوں کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کا سامراجیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تیزی سے پیدا ہوتے سماجی خلا میں مداخلت کر دی۔ آج وہ ہی مداخلت چند فاصلے پر کھڑی ہے۔ کیونکہ لیبا ایٹمی طاقت نہیں تھا ۔ وہ کھیل جوکھیلا جاسکتا تھا کھیلا۔ اس سے قطحہ نظر کہ مغربی طاقتوں کے قذافی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کے دہائیوں پر مشتمل سابقہ رویئے کی وجہ سے اس پر مکمل اعتماد نہیں کیا۔

دہشت گردی کے حملوں کے بعد مایوس ہو کر عالمی طاقتوں نے خانہ جنگی کے اس کھیل کا پاکستان میں آغاز کیا اور اس وقت دنیا کے طاقتور ہاتھوں میں نہ صرف تمام سازشیوں کے ڈورے ہیں ، جو یہ جانتے ہیں کہ کونسے ملک میں کب کیا بد امنی پیدا کرنی ہے اوراس خطرناک گروہ کے ہاتھ میں بہت بڑی معاشی طاقت بھی ہے اور میڈیا کی طاقت بھی۔
پاکستان میں ایک عرصہ سے ملکی اداروں کے خلاف غیر ملکی ہاتھ سرگرم ہے،اور آج پاکستان کے اداروں کے خلاف جو نفرت کی آگ سوشل میدیا کے زریعے پھیلائی جارہی ہے، لوگ جانے انجانے میں اور نہ سمجھتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس آگ کا اندھین بن رہے ہیں، ہم ہمارے بھائی بچے سب اس میں شامل ہیں، اج موم پھلی کے ٹھیلوں پر چیف آف ارمی سٹاف کی تعیناتی ڈسکس ہو رہی ہے. اور حالات یہ ہے کہ بیگم نے جس سودا سلف کے لئے بازار بھیجا تھا خود وہ بھول چکے ہیں.

عام آدمی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ سوشل میڈیا پر فیک اکاونٹ اور بوٹس ہوتے ہیں ، اور بیرونی ممالک سے انہی فیک اکاونٹ اور بوٹس کے زریعے کسی بھی ایشوز پر ایک ملک میں رہنے والے باشندوں کو لڑایا اور تقسیم کیا جاتا ہے. اورعام آدمی بلا سوچے سمجھے ان ایشوز پر بحث کرتے نفرت اور انا کی ایک ایسی جنگ کا حصہ بن جاتا ہے ، جو کسی طور پر بھی اس کی جنگ ہوتی ہی نہیں.

اس ہم کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کشمریوں نے اپنی آزادی کے لئے کونسی قربانی نہیں دی ، مگر اقوام عالم نے انہیں محض زمین پر رینگنے والی چیونٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی. اج ایک آزاد و خودمختار پاکستان جس نے آپ کو پہچان دی اوراپنا تشخص دیا ، اسکی سلامتی کیسے اداروں کے بغیر ممکن ہو سکتی ہے؟ دنیا بھر کی قوتیں، کسی بھی ملک کے اداروں کو کمزور کرکے اس پر غلبہ یا قبضہ حاصل کرتی ہیں ، ہمیں یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ معیشت کی مضبوطی اور ملکی استحکام کے لیے بنیاد ہماری ادارے ہیں ادارے مضبوط ہونگے تو ملک مضبوط ہوگا، جب ملک مضبوط ہوگا تب ہی ہم دینی و عصری تعلیم و صحت کا نظام، یکساں احتسابی نظام، ملکی مصنوعات کا فروغ، مہنگائی کا سدباب، سرمایا کاری پر توجہ، بدعنوانی اور کرپشن کی روک تھام، روزگار کی فراہمی، قوانین پرعمل داری، ٹیکس کی بروقت ادائیگی، بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول، اسراف سے انحراف، جدید اور پیشہ ورانہ تعلیم کے ذرائع پیدا کرنے ، باہمی اخوت و محبت کا فروغ اور سیاسی اتحاد سمیت کئی دیگرعوامل پر غورکام کرکے اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں.

کیوں کہ آزادی کی قدر غلام قوموں کے پاس ہوتی ہے اور یہ نہ ہو کہ کل آپ پر کوئی غیر ملکی ادارے بندوق کے زور پر حکومت کر رہے ہوں. اور آنے والی نسلیں خدانخواستہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ جائیں ، لہذا ہمیں بحثیت قوم آج اس بات پر متحد ہونے اور خود سے یہ عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے درمیان اندرونی اختلافات کبھی اس نہج پر نہ چلے جائے جس سے ملک پاکستان کی بقا اور سلامتی کو خطرات لاحق ہوں، کیونکہ اگر یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں، اور خدا نہ خواستہ یہ ملک نہیں تو ہم بھی نہیں. ہم سب کو استحکام پاکستان کے لیے مل بیٹھنے کی اور مکالمے کی ضرورت ہے- وہ مکالمہ جو ذاتی انا رنجشوں اوراختلافات سے مبرا ہو، اللہ تعالی سے اس دعا کے ساتھ ساتھ ہمیں عملی طور پر پرملک پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے تحفظ اور سالمیت کی بقاء کےلیے اداروں کے ساتھ مل کرکردار ادا کرنا ہوگا.

Uncategorized

ماسکو سربراہی اجلاس: آرمینیا کے سیاسی اقدام کے لیے اختتام

Published

on

ماسکو میں توسیعی شکل میں منعقدہ سپریم یوریشین اکنامک کونسل کے اجلاس میں صدر الہام علیئیف کی تقریر اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان کے بے بنیاد دعووں پر ان کے کرتوت اور تند و تیز ردعمل نے ایک بار پھر آذربائیجان کی سیاسی اور اقتصادی طور پر مکمل طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اگرچہ آذربائیجان کے صدر کو ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن نے بطور مہمان مدعو کیا تھا، تاہم سربراہ مملکت نے آذربائیجان، روس اور آرمینیا کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ آذربائیجان نے ہمیشہ تعمیری مذاکرات کی حمایت کی ہے اور آرمینیا کے ساتھ زیر التواء مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

تاہم یہ تجزیہ کرنا بھی دلچسپ ہے کہ اس ملاقات کا آرمینیا کے لیے کیا فائدہ ہوگا۔ سوال کا جواب بہت آسان ہے۔ سب سے پہلے، پشینیان کا آذربائیجان کی علاقائی سالمیت کو تسلیم کرنا اور اس بات کا اعتراف کہ وہ کسی بھی علاقائی مسئلہ پر آذربائیجان کے ساتھ متفق ہوں گے، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یریوان کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس وقت تک، آرمینیا نے تمام تاش کے ساتھ کھیلا، کبھی مغرب کی طرف جھکاؤ رکھتا تھا، اور کبھی روس کی طرف، جس کی وہ سیاسی اصولوں میں مسلسل مخالفت کرتا ہے۔ لیکن یہ تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ شاید، پشینیان ایک ہوشیار سیاست دان ہو سکتا ہے اگر وہ اپنے ملک کی اقتصادی بحالی کی خاطر کاراباخ اور زنگازور کے مسائل پر بہت پہلے درست فیصلہ کر لیتا، جو تمام معاملات میں آذربائیجان سے بہت چھوٹا ہے۔ تاہم، یہ اسے ذمہ داری سے مستثنیٰ نہیں کرتا۔ اب مایوس وزیر اعظم گواہی دے رہے ہیں کہ جس وقت سے وہ کھیلتے تھے وہ بھی ان کے خلاف ہو رہا ہے۔

آرمینیائی پہلے ہی سمجھ چکے ہیں کہ خطے کا تنازعہ کسی بھی سرکردہ ریاست کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ آرمینیا، جس نے برسوں سے قبضے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، وہ ان علاقوں میں کچھ نہیں کر سکا جن سے اس نے آذربائیجان کو چھیننے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ یریوان یہ نہیں سمجھتا تھا کہ ان علاقوں کی سب سے بڑی شریان اب بھی آذربائیجان سے گزرے گی۔ آج، زنگازور ٹرانس کیسپین انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ روٹ (مڈل کوریڈور) کا حصہ ہے، اور آذربائیجان ایسے موقع کا اصل مالک ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا نقشہ ہے جو جیو پولیٹیکل عمل سے بنایا گیا ہے جو مستقبل میں تمام براعظموں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ آذربائیجان کے یوریشین اکنامک یونین کے رکن ممالک کے ساتھ دو طرفہ شکل میں قریبی تعلقات ہیں، سوائے آرمینیا کے۔ نیز، آذربائیجان کا ان ممالک کے ساتھ تقریباً 5 بلین ڈالر کا تجارتی کاروبار ہے۔ خود کو ان تمام مواقع سے محروم کرتے ہوئے، آرمینیا دنیا کی حرکیات سے باہر رہا۔ آرمینیا، جو اب تک تمام بڑے منصوبوں سے باہر ہے، اس سوال کا سامنا کر رہا ہے کہ میں آج تک کیا حاصل کر سکا… یہ کہنا درست ہے، پشینیان پہلے ہی اس بات کو پوری طرح سمجھتا ہے، اور اس کے تمام گھبراہٹ والے چہرے کے تاثرات اور افعال اس ملاقات کا تعلق اس کی آنکھوں کے سامنے آذربائیجان کی حقیقت سے نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اب تک جو غلط قدم اٹھایا ہے۔

آرمینیا واضح طور پر دیکھتا اور سمجھتا ہے کہ آذربائیجان ایک مستحکم معیشت کے ساتھ ایک خود کفیل ملک ہے اور آرمینیا کے برعکس اسے بیرون ملک سے کسی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آذربائیجان اس صورتحال میں ہے اسے ایک آزاد خارجہ پالیسی چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، آذربائیجان مشرق-مغرب اور شمال-جنوب نقل و حمل کی راہداریوں میں ایک فعال شریک ہے۔ زنگازور کوریڈور خطے کے ممالک کی ٹرانزٹ صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں نئے مواقع کھولتا ہے۔ مزید یہ کہ آذربائیجان میں جدید ٹرانسپورٹ اور ٹرانزٹ انفراسٹرکچر موجود ہے۔ بین الاقوامی بندرگاہ، شپ یارڈ، جدید بڑے بحری بیڑے، ہوائی اڈے اور ہوائی جہاز اس کی اقتصادی صلاحیت کا مرکز ہیں۔ اس کے علاوہ، برآمدی تنوع آذربائیجان کے اہم مقاصد میں سے ایک ہے۔ یہاں تک کہ ریاست کے سربراہ نے لیتھوانیا کے اپنے ورکنگ دورے کے دوران اس پر زور دیا۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج یورپ، مغرب اور روس آذربائیجان جیسے ملک کو کامیاب ترین شراکت دار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ تعمیر نو کے کاموں میں آذربائیجان کی تیز رفتار ترقی نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ بلاشبہ ایسے ساتھی کے ساتھ معاشی کامیابی کی طرف بڑھنا عقلی پالیسی چلانے والی ہر جمہوری ریاست کا خواب ہوتا ہے۔

ماسکو میٹنگ میں، پشینیان حقیقی آرمینیائی پوزیشن کی نمائش کی خاطر اپنی حدود میں رہے۔ انہوں نے زنگازور راہداری کے بارے میں سوال کا جواب دینے کی کوشش کی اور کچھ بے بنیاد دعوے بھی میز پر پھینک دیئے۔ لیکن جواب بہت ناکام رہا۔ کیونکہ صدر الہام علیئیف کا جواب نہ صرف آذربائیجان بلکہ اس پرتعیش محل میں شریک بہت سے ممالک کے مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وجہ سے پشینیان کے لیے اس معاملے میں کوئی بھی لفظ استعمال کرنا نامناسب تھا۔

Continue Reading

ٹرینڈنگ