رپورٹ: اشتیاق ہمدانی
ماسکو – روسی اکیڈمی آف سائنسز میں 4 جون کو ساتویں ماسکو اکیڈمک اکنامک فورم (IIMAEF-2025) کی مرکزی تقریبات کا باضابطہ آغاز ہوا۔ یہ بین الاقوامی فورم روس کی فری اکنامک سوسائٹی اور روسی اکیڈمی آف سائنسز کے باہمی اشتراک سے منعقد کیا گیا، جو کہ اپنی 260ویں سالگرہ بھی منا رہی ہے
فورم 2025 میں دنیا بھر کے 32 ممالک سے 17,500 سے زائد اقتصادی ماہرین، اسکالرز اور پالیسی سازوں نے شرکت کی، جن میں چین، بھارت، کینیڈا، کیوبا، جرمنی، یونان، جنوبی افریقہ، بیلاروس، قازقستان، آذربائیجان اور جارجیا کے نمائندے شامل ہیں۔
فورم کی سرگرمیوں کے دوسرے دن یعنی 5 جون کو ملک بھر کی اعلیٰ جامعات اور سائنسی تحقیقی مراکز میں 13 بڑی مرکزی کانفرنسز منعقد ہوئیں، جن میں ایک اہم اجلاس ماسکو پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں ہوا۔
ان کانفرنسوں میں انسانی سرمائے (Human Capital) کی ترقی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی گفتگو کی گئی، خصوصاً اس پس منظر میں کہ آج کے جدید دور میں مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) مختلف شعبہ ہائے معیشت میں کس طرح تیزی سے داخل ہو رہی ہے۔
ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی سرمائے کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ایسے جدید سائنسی ماڈلز کی ضرورت ہے جو ڈیجیٹل بزنس پراسیسز کے تقاضوں کو پورا کر سکیں، اور حقیقی اقتصادی شعبوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشی پالیسی سازی میں رہنمائی فراہم کریں۔
فورم کی عملی اہمیت اس بات میں ہے کہ اس نے انسانی سرمائے کو بہتر بنانے اور معیشت کی ڈیجیٹل منتقلی کے دور میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک سائنسی اور بین الاقوامی مکالمے کی بنیاد فراہم کی ہے۔
فورم کی افتتاحی نشست میں معروف سائنس دانوں، اقتصادی ماہرین، وفاقی حکومت کے قانون ساز اور انتظامی اداروں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے صدر اور MAEF کے شریک صدر اکیڈمک گینادی کراسنیکوف نے زور دیا کہ یہ فورم ملکی و علاقائی سطح پر معاشی پالیسیاں وضع کرنے میں کلیدی سفارشات فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا:
“اجلاس کا بنیادی موضوع ملک کی متوازن و متحرک سماجی و اقتصادی ترقی کے راستے تلاش کرنا ہے، تاکہ ان سفارشات کو قومی سائنسی و تکنیکی ترقی کی حکمت عملی اور علاقائی پالیسیوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔”
فورم کے دوران روسی معاشی ماہرین نے نئی مالیاتی و کریڈٹ پالیسیوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز کے اکیڈمک اور وی ای او روس کے نائب صدر سرگئی گلازیف نے کہا:
“اقتصادی سست روی کی سب سے بڑی وجہ کریڈٹ کی عدم دستیابی ہے۔ موجودہ شرح سود صنعتی شعبے کی منافع بخش حد سے زیادہ ہے، جس کے باعث سرمایہ کاری رک گئی ہے۔”
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک سستی فنانسنگ دستیاب نہیں ہوگی، صرف وہی شعبے ترقی کریں گے جو اپنی سرمایہ کاری خود برداشت کر سکتے ہیں، جیسے معدنیات اور قدرتی وسائل کا شعبہ۔
ماہرین نے تجویز دی کہ پیسے کو بطور “وسیلہ” دیکھا جائے نہ کہ “مقصد”۔ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہی ایسی پالیسی کا محور ہونا چاہیے، جس سے پیداوار بڑھے گی، لاگت کم ہوگی اور مصنوعات کا معیار بہتر ہوگا، اور یوں معیشت طویل مدتی استحکام حاصل کرے گی۔
فنانس یونیورسٹی کے ریکٹر اسٹانسلاو پروکوفیف نے کہا کہ روس کی نئی صنعتی پالیسی سائنسی و تکنیکی پیش رفت، ڈیجیٹائزیشن، مصنوعی ذہانت، توانائی کی تبدیلی اور نئی عالمی اقتصادی ساخت پر مبنی ہے۔
انہوں نے کہا:
“وہی ممالک برتری حاصل کریں گے جو صنعتی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی پیشگوئی کر کے نئے ماڈلز نافذ کریں گے۔”
ریسرچرز کے مطابق روس کے دفاعی صنعتی ادارے ملک کے جدید ترقیاتی نظام کی بنیاد ہیں۔ ان کا کردار خاص طور پر ہوابازی، الیکٹرانکس، خلائی تحقیق، صنعتی مشینری اور طبی آلات میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، جن میں سے کچھ شعبے 80 تا 90 فیصد تک ملکی پیداوار میں حصہ ڈال رہے ہیں۔
اکیڈمک فیودر وئیتولوفسکی کے مطابق، روس دنیا میں پینے کے پانی کے دوسرے بڑے ذخائر رکھتا ہے، جو مستقبل میں اقتصادی ترقی کا بڑا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اسی طرح، آركٹک علاقہ روس کی معیشت میں اسٹریٹیجک دھاتوں کے حوالے سے ایک “خزانہ” ہے، جس کی مکمل صلاحیت ابھی استعمال نہیں ہو رہی۔
ماسکو اکیڈمک اکنامک فورم دنیا بھر کے ماہرین کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے جہاں وہ روس اور دنیا کی معیشت کے مستقبل پر کھل کر اظہارِ خیال کرتے ہیں۔ اس فورم کی سفارشات روس کی معاشی سمت، سائنسی ترقی، اور صنعتی خودکفالت کے لیے انتہائی مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
#MAEF2025 #روس\_معاشی\_فورم #مصنوعی\_ذہانت #معاشی\_ترقی #سائنس\_اور\_ٹیکنالوجی #پالیسی\_سازی