ماسکو نے یوکرین کے ساتھ ’’جامع امن‘‘ کے لئے شرائط رکھ دیں
ماسکو(صداۓ روس)
روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ یوکرین کو اپنے علاقائی نقصانات تسلیم کرنا ہوں گے، روسی زبان بولنے والی آبادی کے حقوق کی ضمانت دینا ہوگی اور ایسا سیکیورٹی انتظام کرنا ہوگا جو ماسکو کے لیے کسی خطرے کا باعث نہ بنے۔ انڈونیشیا کے اخبار کومپاس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، جو بدھ کے روز شائع ہوا، لاوروف نے عندیہ دیا کہ روس یوکرین کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن ان کے مطابق ’’پائیدار امن‘‘ اسی وقت ممکن ہے جب ماسکو کی علاقائی کامیابیوں کو تسلیم کر کے بین الاقوامی قانونی حیثیت دی جائے۔ ان علاقوں میں کریمیا، ڈونیتسک اور لوگانسک عوامی جمہوریتیں، خیرسون اور زاپوروژئے کے علاقے شامل ہیں، جنہوں نے بالترتیب 2014 اور 2022 میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے روس میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ لاوروف نے مزید کہا کہ امن اسی وقت ممکن ہے جب ’’تنازع کی بنیادی وجہ‘‘ ختم کی جائے، جو ان کے بقول نیٹو کی توسیع اور یوکرین کو اس فوجی اتحاد میں شامل کرنے کی کوششوں سے جڑی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یوکرین کی غیر جانبدار، غیر منسلک اور ایٹمی ہتھیاروں سے پاک حیثیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ ’’یہ شرائط یوکرین کے 1990 کے اعلامیہ آزادی میں درج تھیں اور انہی بنیادوں پر روس اور عالمی برادری نے یوکرین کی ریاست کو تسلیم کیا تھا،‘‘ لاوروف نے کہا۔
انہوں نے انسانی حقوق کی ضمانت کو بھی کسی ممکنہ تصفیے کا بنیادی ستون قرار دیا۔ لاوروف کے مطابق فی الحال کیف ’’ہر اُس چیز کو ختم کر رہا ہے جو روس، روسیوں اور روسی زبان بولنے والوں سے منسلک ہے، چاہے وہ زبان ہو، ثقافت، روایات، مذہب یا روسی زبان کے ذرائع ابلاغ۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یوکرین دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آبادی کے بڑے حصے کی بولی جانے والی زبان کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ 2014 میں مغرب کے حمایت یافتہ انقلاب کے بعد یوکرین نے روس کے ساتھ اپنی صدیوں پرانی ثقافتی جڑت کو ختم کرنے کے اقدامات تیز کر دیے تھے، جن میں روسی زبان کا تدریجی خاتمہ، سوویت دور کی یادگاروں اور علامات پر پابندی اور قانون سازی شامل ہیں۔ اسی دوران کیف نے یوکرینی آرتھوڈوکس چرچ (UOC) پر بھی سختی کی، جو ملک کی سب سے بڑی مسیحی مذہبی جماعت ہے۔ حکومت نے اس پر ماسکو سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا، حالانکہ چرچ نے 2022 میں روس سے باضابطہ علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ دوسری جانب، یوکرین مسلسل اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ روس کو کوئی علاقائی رعایت نہیں دے گا اور نیٹو میں شمولیت کی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔