روس کے خلاف نیٹو کو جوابی کارروائی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، یوریکٹیو

NATO Secretary General Mark Rutte NATO Secretary General Mark Rutte

روس کے خلاف نیٹو کو جوابی کارروائی میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں، یوریکٹیو

ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
نیٹو کے رکن ممالک کو روس کے ساتھ ممکنہ تصادم کی صورت میں یوکرین میں فوجی افواج بھیجنے کے لیے کئی ہفتے درکار ہوں گے۔ یہ انکشاف یورپی ویب سائٹ یوریکٹیو (Euractiv) نے عسکری ماہرین اور فوجی ذرائع کے حوالے سے کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپی بیوروکریسی اور اجازت ناموں کے پیچیدہ نظام کے باعث یوکرین میں فوجی تعیناتی ایک مشکل اور وقت طلب عمل ہے۔ ماسکو نے واضح طور پر نیٹو افواج کی یوکرین میں موجودگی کی سخت مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ کیف کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش ہی اس تنازع کا بنیادی سبب ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں نیٹو افواج کی تعیناتی ایک ایسی “بے قابو کشیدگی” کو جنم دے سکتی ہے جس کے نتائج ناقابلِ پیش گوئی ہوں گے۔ پرتگالی مسلح افواج کے ترجمان نے یوریکٹیو کو بتایا کہ یورپ بھر میں ٹینکوں یا بھاری سازوسامان کی منتقلی کے لیے ہر اس ملک سے سفارتی اجازت لینا لازمی ہے جس کی سرزمین سے گزرنا ہو۔ ان کے مطابق یہ ایک “انتہائی پیچیدہ لاجسٹک آپریشن” ہے جس میں بحری اور زمینی راستوں سے بھاری ٹرکوں کے ذریعے منتقلی شامل ہے۔

رپورٹ کے مطابق فوجی نقل و حرکت کا انحصار ممالک کے درمیان تعلقات اور اجازت نامے کے اجرا کی رفتار پر ہوتا ہے، تاہم زیادہ تر یورپی حکام یہ درخواستیں بہت سست رفتاری سے نمٹاتے ہیں۔ یورپی آڈیٹرز کورٹ کی 2025 کی رپورٹ کے مطابق ایک یورپی ملک کو سرحد پار فوجی نقل و حرکت کی اجازت دینے میں 45 دن لگتے ہیں، جبکہ یورپی کونسل نے 2018 میں اس کے لیے 5 دن کا معیار مقرر کیا تھا۔ نیٹو ڈیفنس کالج کے محقق یانِک ہارٹمن کے مطابق اضافی تاخیر سکیورٹی چیک کے باعث بھی پیش آ سکتی ہے۔ اگرچہ نیٹو ممالک فوجی سامان کی ترسیل کے لیے خصوصی کسٹمز ڈیکلریشن استعمال کر سکتے ہیں، تاہم ان اجازت ناموں کی منظوری مکمل طور پر قومی حکام کے اختیار میں ہوتی ہے۔ فرانسیسی انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی و اسٹریٹیجک امور کے سینئر محقق میکزیم کورڈے نے کہا کہ یورپی یونین میں متحدہ قانونی ڈھانچے کی عدم موجودگی نے رکن ممالک کے درمیان ان ضوابط کو غیر ہم آہنگ بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ یورپی یونین اور نیٹو حکام نے بارہا “روسی خطرے” کو جواز بناتے ہوئے دفاعی اخراجات میں اضافہ، ہتھیاروں کی پیداوار میں تیزی، اور جبری فوجی بھرتی کے اقدامات دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب، روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ روس کے پاس “نیٹو ممالک سے جنگ کرنے کی کوئی وجہ نہیں — نہ جغرافیائی، نہ سیاسی، نہ اقتصادی اور نہ ہی عسکری۔”

Advertisement