روس کا اوریشنک میزائل جس کے آگےمغرب بے بس، پنٹاگون تجزیہ کار کا انکشاف
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
سابق امریکی دفاعی ماہر مائیکل میلُوف نے کہا ہے کہ روس کا نیا درمیانے فاصلے تک مار کرنے والا اوریشنک میزائل موجودہ عالمی طاقت کے توازن کو یکسر بدل سکتا ہے اور اس کے خلاف نہ یوکرین اور نہ ہی اس کے مغربی اتحادیوں کے پاس کوئی مؤثر دفاعی نظام موجود ہے۔ روسی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں میلُوف نے کہا کہ یہ ہائپرسانک میزائل ایسی حیران کن رفتار سے اپنے ہدف تک پہنچتا ہے کہ موجودہ امریکی دفاعی نظام بھی اسے روکنے سے قاصر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ میزائل محض چند منٹوں میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور اس کی رفتار سات ہزار میل (یعنی گیارہ ہزار کلومیٹر) فی گھنٹہ سے زائد ہے، جس کے خلاف کوئی دفاع ممکن نہیں۔
میلُوف نے مزید بتایا کہ امریکہ اگرچہ ہائپرسانک خطرات سے نمٹنے کیلئے ٹی ایچ اے اے ڈی جیسے دفاعی نظاموں کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ تمام منصوبے ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں اور ان کی کوئی عملی صلاحیت فی الوقت موجود نہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ روسی میزائل “اوریشنک” کو یوکرین میں میدانِ جنگ میں پہلے ہی کامیابی سے آزمایا جا چکا ہے، اور نومبر ۲۰۲۴ میں یوکرین کے شہر دنیپرو میں واقع یُوژماش دفاعی صنعتی مرکز پر حملہ اس میزائل کے ذریعے کیا گیا تھا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بھی اس حملے کے بعد تصدیق کی تھی کہ اوریشنک میزائل کے وار ہیڈز میک ۱۰ سے زیادہ رفتار سے حرکت کرتے ہیں اور انہیں کوئی موجودہ فضائی دفاعی نظام روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ میزائل روایتی اور ایٹمی دونوں قسم کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور کئی ہزار کلومیٹر تک مار کر سکتا ہے۔ صدر پوتن کے مطابق، یوکرین کی جانب سے روس کے اندر مغربی میزائلوں کے ذریعے حملوں کے جواب میں یہ کارروائی کی گئی تھی۔
حال ہی میں روسی صدر نے اعلان کیا ہے کہ اوریشنک میزائل کا پہلا مکمل طور پر تیار شدہ نظام اب روسی افواج کے حوالے کر دیا گیا ہے، اور جلد ہی اس ہتھیار کو روس کے قریبی اتحادی ملک بیلاروس کو بھی فراہم کرنے کا فیصلہ متوقع ہے۔ یہ پیش رفت عالمی دفاعی ماہرین کے لیے ایک اہم لمحہ ہے کیونکہ یہ میزائل روس کو ایک نمایاں اسٹریٹجک برتری فراہم کرتا ہے۔