ایران کو جدید فضائی دفاعی نظام دینے کی پیشکش کی، مگر تہران نے دلچسپی ظاہر نہیں کی، صدر پوتن کا انکشاف
ماسکو (صداۓ روس)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے انکشاف کیا ہے کہ روس نے ماضی میں ایران کو فضائی دفاعی نظام (ایئر ڈیفنس سسٹم) سے متعلق مشترکہ منصوبوں کی پیشکش کی تھی، تاہم تہران نے اس میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ یہ بات صدر پوتن نے عالمی خبر رساں اداروں کے سربراہان کے ساتھ ایک نشست کے دوران کہی، جو روسی خبر ایجنسی تاس کے تحت منعقد ہوئی۔
پوتن نے کہا ہم نے ایک وقت میں ایرانی دوستوں کو فضائی دفاعی نظام پر کام کرنے کی پیشکش کی تھی، لیکن اس وقت انہوں نے اس میں زیادہ دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ روس اور ایران کے درمیان موجود اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے میں کسی قسم کی دفاعی شق شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمارے ایرانی دوست خود اس معاملے میں کوئی مطالبہ نہیں کر رہے۔ اس لیے اس وقت اس پر بات کرنے کے لیے کچھ خاص موجود نہیں.
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 13 جون کی شب اسرائیل نے “آپریشن رائزنگ لائن” کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے پیمانے پر حملے شروع کیے۔ اس کے 24 گھنٹوں کے اندر ایران نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اسرائیلی اہداف کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ دونوں ممالک کی جانب سے متعدد اہداف پر حملوں اور جانی نقصانات کی تصدیق ہو چکی ہے، اگرچہ دونوں فریق دعویٰ کرتے ہیں کہ نقصانات محدود رہے۔
روس کے صدر کا یہ بیان خطے میں جاری کشیدگی کے تناظر میں اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ ایران، روس سے فضائی دفاعی مدد حاصل کر سکتا ہے۔ تاہم پوتن کی وضاحت سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ ایران نے اب تک دفاعی تعاون کے حوالے سے کوئی رسمی درخواست نہیں دی، اور نہ ہی اس وقت کوئی عملی پیش رفت جاری ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران کی سرد مہری یا خودمختاری کی خواہش اس موقف کے پیچھے ہو سکتی ہے، یا پھر وہ بین الاقوامی پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ مکمل طور پر کسی ایک عالمی طاقت کے کیمپ میں نہیں جانا چاہتا۔ بہرحال، اس صورتحال میں روسی ثالثی اور دفاعی کردار کا دائرہ محدود دکھائی دے رہا ہے۔