تازہ ترین
قدرتی حسن دیکھنے گزشتہ سال ایک ملین سیاحوں نے خاکاسیا کا رخ کیا. گورنر ویلنٹین کونوالوف

بہت سے روسیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ غیر ملکیوں کے لئے بھی خاکاسیا اس لئے توجہ کا مرکز ہے کیونکہ خاکاسیا جمہوریہ کو روسی صدر نے دنیا کے لیے کھول دیا، یہ ان کی پسندیدہ چھٹیوں کی جگہ ہے۔ ولادیمیر پوتن، وزیر دفاع سرگئی شوئیگو کے ساتھ، سائبیریا کے سوئٹزرلینڈ یا کشمیرجسے خاکاسیا کہا جاتا ہے،میں وقت گزارنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، لیکن قدرتی حسن سے مالا مال جمہوریہ نہ صرف سیاحت بلکہ آثار قدیمہ کا مکہ ہے۔
جمہوریہ خاکاسیا مشرقی سائبیریا کے علاقے کی جنوب مغربی سمت میں واقع ہے۔ جمہوریہ کی سرحدیں شمال اور مشرق سے کراسنویارسک صوبے کے ساتھ، جنوب مشرق اور جنوب سے جمہوریہ تووا کے ساتھ، جنوب اور جنوب مغرب سے الطائی جمہوریہ کے ساتھ، اور مغرب اور شمال مغرب سے صوبہ کیمیروو کے ساتھ ملتی ہیں۔ یہ شمال سے جنوب تک 460 کلومیٹر (290 میل) اور مشرق سے مغرب تک 200 کلومیٹر (120 میل) پھیلا ہوا ہے۔ پہاڑ جمہوریہ کے دو تہائی علاقے پر محیط ہیں اور جمہوریہ کی قدرتی سرحدوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دریائے ینیسی جمہوریہ کا سب سے بڑا دریا ہے۔ دیگر اہم دریا ابکان، تام، سفید لیاس، بلیک لیاس اور چولیم ہیں۔ اس جمہوریہ میں تین سو سے زائد جھیلیں ہیں جن میں نمکین پانی اور میٹھا پانی دونوں موجود ہیں۔ آب و ہوا براعظمی ہے، جس کا اوسط سالانہ درجہ حرارت 0 °C (32 °F) ہے۔ قدرتی وسائل وافر ہیں اور ان میں لوہا، سونا، چاندی، کوئلہ، تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں۔ کے ذخائر ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ جنگلات جمہوریہ کے جنوب اور مغرب پر محیط ہیں۔
حال ہی میں مجھے روسی وزارت خارجہ کی دعوت پر خاکاسیا پریس ٹور پر جانے کا اتفاق ہوا ، خاکاسیا کی خوبصورتی اور دریا اور پہاڑ بالکل ایسے مناظرکی عکاسی کرتے ہیں جیسا کشمیر میں ہم اکثردیکھتے ہیں. خاکاسیا کی خوبصورتی ہی نہیں بلکہ وہاں کی خواتین کا لباس اور زیور بھی کشمیری خواتین سے مشترک ہے ، خاکاسیا کی خوبصورتی اور دیگر اہم معلومات اور ہمارے پریس ٹور پر مشتمل تفصیلی مضمون بھی جلد پوسٹ کیا جائے گا. لیکن اج مجھے اپنے ویت نام کے کولیگ (ہے) کے ہمراہ ، روس کی ریاستی، سیاسی شخصیت، کمیونسٹ پارٹی کے رکن اورخاکاسیا کے نوجوان گورنر ویلنٹین اولیگووچ کونوالوف سے ملاقات اورانٹرویو کا موقع ملا. ویلنٹین کونوالوف 30 نومبر1987میں پیدا ہوئے، 2018 میں خاکسیا کے گورنر کا انتخاب جیتا تھا۔ 15 نومبر 2018 کو جمہوریہ خاکسیا کی حکومت کے گورنر کی حشیت سے حلف اٹھایا.
خطے کے سربراہ ویلنٹین کونوالوف کا انٹرویو ملاخط فرمائیں۔
اشتیاق ہمدانی:
سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آمد کے فوراً بعد ہمیں خاکسیا کے سربراہ کی حیثیت سے آپ نے ملاقاتکا وقت دیا، اور آپ سے مل کر کے بہت خوشی ہو رہی ہے، مجھے آپ سے ملاقات کر کے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا. کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ جمہوریہ میں حالات کیسے چل رہے ہیں اور کیا ہو رہا ہے؟ آپ نے جمہوریہ کے سربراہ کی حیثیت سے سال کے آغاز میں چین کے ساتھ تعاون کو بڑھانے کے منصوبوں کے بارے میں بات کی۔ لہٰذا اس ضمن میں ملکی ترقی اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے آپ نے کن منصوبوں پر اتفاق کیا؟ اس کے علاوہ کیا اس سال کے آخر تک تجارتی حجم بڑھ سکتا ہے؟
ویلنٹین کونوالوف:
ہمارے اس وقت چین کے ساتھ تجارتی تعلقات مثبت راست پرآگئے بڑھ رہے ہیں۔ جمہوریہ خاکسیا ایک صنعتی جمہوریہ ہے، اور ہماری مجموعی علاقائی پیداوار کا نصف بھی صنعت سے وابستہ ہے۔ جس میں دھات کاری، اور کوئلے کی صنعت سمیت پن بجلی شامل ہے۔ اس وقت مغربی ممالک کی طرف سے روس پر لگائی گئی اقتصادی پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہماری جمہوریہ نے بھی اپنی تجارتی سرگرمیوں کا رخ چین کی طرف اتبدیل کرلیا ہے۔ مغربی پابندیوں کا اطلاق ہماری مصنوعات کی فراہمی اور سامان کی خریداری پر بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ جو سامان ہمارے ادارے استعمال کرتے تھے ان میں سے کچھ جزوی طور پر مغربی آلات تھے۔ ہم نے چینی مصنوعات سمیت اپنی مصنوعات کے نمونوں سے تبدیل کرلیا ہے.
اشتیاق ہمدانی:
جمہوریہ خاکسیا متحرک طور پر ترقی کر رہی ہے، اس وقت کن ممالک کے ساتھ آپ کے ایم تجارتی تعلقات ہیں؟
ویلنٹین کونوالوف:
دراصل ہمارا تعاون روایتی طور پر کثیر الجہتی رہا ہے۔ اس وقت یقیناً پابندیوں کی وجہ سے آج مغربی دنیا سے ہماری تجارت کم ہوتی جا رہی ہے لیکن مشرقی ممالک سے تعلقات تیزی سے استوار ہو رہے ہیں۔ یہ ایک اہم بات ہے کہ مغربی پابندیوں کے باوجود ہماری کوریا اور جاپان دونوں ممالک کے ساتھ تجارت جاری ہے۔ اس کے علاوہ ہم عرب ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم مشرقی دنیا سے تجارتی میدان میں تیزی سے جڑتے جا رہے ہیں، اس سال میں نے ولادی ووستوک میں ایسٹرن اکنامک فورم کا دورہ بھی کیا ہے اور وہاں مزید ترقی کے لیے متعدد امکانات کی نشاندہی بھی کی ہے۔
اشتیاق ہمدانی:
آپ کی جمہوریہ میں برآمدات کا بڑا حجم ہے۔ خاکآسیا کی کون سی مصنوعات کی دوسرے ممالک میں سب سے زیادہ مانگ ہے؟
ویلنٹین کونوالوف:
اگرہم برآمدات کے بارے میں بات کرتے ہیں تو یقینا دیگر ممالک کو ہماری دھات کاری میں سب سے زیادہ دلچسپی ہے، اس کے علاوہ ایلومینائزرز کی مصنوعات ہیں اور کوئلہ بھی ہے. مزید براں ہم خوراک اور ہلکی صنعت کا سامان بھی برآمد کرتے ہیں، اور ہم ان شعبوں کو مزید ترقی دینے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔
اشتیاق ہمدانی:
عالمی پابندیوں کے بعد درآمدات کے بجائے اپنی پیداوار بڑھائی جا رہی ہے۔ خاکسیا اس سمت میں کیسے بدل رہا ہے؟
ویلنٹین کونوالوف:
درآمدی متبادل کے لحاظ سے میں پہلے ہی جواب دے چکا ہوں۔ ہمارے بڑے اداروں نے دوبارہ خود ساختہ تعمیرو ترقی کا فیصلہ کیا ہے. اور آج ہمارا سامان ملک کے اندر اور ہمسایہ ممالک جیسے بیلاروس اور چین میں بھی خریدا جاتا ہے۔ چین درآمدی متبادل میں ہماری مدد کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے زرعی صنعتی کمپلیکس میں برآمدی پیداوار بڑھ رہی ہے. اس سال ہمارے کسانوں نے بھی بڑی سطح پر گھریلو سازوسامان کو ترجیح دی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری جمہوریہ کو ان پابندیوں سے نقصان نہیں اٹھانا پڑا.
اشتیاق ہمدانی:
کیا آپ تعلیم، ثقافت اور کھیل کے میدان میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دے رہے ہیں؟
ویلنٹین کونوالوف:
جی ہاں یقیناً تعلیم، ثقافت اور کھیل کے میدان میں بھی دوسرے ممالک کے ساتھ تعاون جاری ہے۔ جس میں قریبی ممالک کرغزستان، قازقستان، اور بیلاروس شامل ہیں. دوسری جانب ہم منگولیا اور چین دونوں کے ساتھ بھی قریبی رابطوں میں ہیں۔
اشتیاق ہمدانی:
سیاسی تناظر میں، اس ریجن میں مغربی ممالک کے ساتھ اب کیسے رابطے ہیں؟
ویلنٹین کونوالوف:
ہم سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک کے ساتھ رابطوں میں واقعی کمی آئی ہے، لیکن اس کے باوجود وہ جاری ہیں۔ اور کسی بھی صورت میں یہ مجھے لگتا ہے کہ وہ لامحالہ جاری رہیں گے اور بڑھیں گے، کیونکہ اختلافات کو ہمیشہ مذاکراتی میز پر حل کیا جا سکتا ہے۔
اشتیاق ہمدانی:
آپ کی جمہوریہ میں دوسرے ممالک کے مہمانوں کو سب سے زیادہ کیا چیز اپنی طرف متوجہ کرتی ہے؟ اگرچہ ہم یہاں 2-3 دنوں میں بہت سی چیزیں دیکھنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اور اپ سے ملاقات سے قبل ہمیں اپنے طور پراس بات کا جواب مل چکا ہے تاہم میں آپ سے سننا چاہوں گا.
ویلنٹین کونوالوف:
ہم سیاحت کو ترقی دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سال ہم نےبھرپور کاوشیں کیں اور اسی وجہ سے ایک ملین سیاحوں نے جمہوریہ کاوزٹ کیا۔ یہ ہمارے لئے کافی بڑی تعداد ہے لیکن یقینا اس کومزید بڑھانا ہے. ہماری جمہوریہ بہت مہمان نواز ہے۔ ہم اپنے پاس آنے والے مہمانوں کو دیکھ کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں۔ ہماری اپنی مخصوص روایات اور رسوم ہیں جن میں مہمان نوازی کی روایات بھی شامل ہیں۔ آج ہم سیاحتی انفراسٹرکچر کو متحرک طور پر ترقی دے رہے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس دکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہماری جمہوریہ میں ایسی یادگاریں بھی موجود ہیں جن کی ایک ہزار سالہ تاریخ ہے, جبکہ 4 ہزار سال قبل مسیح اور 3 ہزار سال قبل مسیح دونوں کے اثار قدیمہ موجود ہیں۔ یہاں میگالیتھک عمارتیں جیسے سالبیک بیرو بھی ہیں۔ اس کے علاوہ صنعتی تنصیبات ہیں جو سیاحوں کے لئے انتہائی متاثر کن ہیں۔ یہاں Sayano-Shushenskaya دریائے Yenisei پرواقع ہے۔ یہ روس کا سب سے بڑا پاور پلانٹ ہے اور اوسطاً بجلی کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا 9 واں سب سے بڑا ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹ ہے۔ ایک طرف یہ ایک بہت بڑی پیداواری تنصیب ہے، جو بجلی کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں ٹاپ ٹین میں ہے، لیکن دوسری طرف یہ ایک شاندار تعمیراتی نمونہ ہے۔ لہذا ہم ہمیشہ آپ کے ساتھ ساتھ سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے منتظرہیں.
اشتیاق ہمدانی:
خاکسیا بہت دلچسپ اور خوبصورت خطہ ہے اوراس کے بارے میں بہت اہم اوردلچسپ بات نشست ست بہت کچھ جاننے کو ملا۔ لیکن میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ کیا آپ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے اندرون ملک سیاحت کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ویلنٹین کونوالوف:
ہاں ہم اس علاقے کی سیاحت کو ملکی سطح پر بھی ترقی دینے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر چونکہ ہماری سیاحت ہرموسم میں ہوتی ہے۔ اور یہاں بہت ہی پرکشش مقامات موجود ہیں جو ملکی اور غیرملکیوں کو معلوم ہیں۔ مثال کے طور پر موسم سرما میں یہاں “Priiskovy” ہے، Snowmobilers ہے جہاں پورے ملک اور پوری دنیا سے سیاح ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہم اپنے ہوائی اڈے کو بھی جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ یہاں یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ مثال کے طور پر اس موسم گرما میں ہم نے ماسکو سے پروازیں بڑھا کر تین کر دیں ہیں۔ سردیوں میں دو پروازیں اڑتی ہیں۔ مستقبل میں ہم ان علاقوں اور دیگر ممالک کے درمیان پروازیں چلانے غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اشتیاق ہمدانی:
آپ نے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات کی بات کی، کیا عرب ممالک کے لیے کوئی براہ راست پروازیں شروع ہو سکتی ہیں؟
ویلنٹین کونوالوف:
ابھی تک عرب ممالک کے لیے براہ راست پروازوں کا کوئی خاص منصوبہ نہیں ہے لیکن ہم اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اشتیاق ہمدانی:
اپ نے انٹرویو کے لئےوقت دیا ، اوریہاں پر وزارت خارجہ اور ٹورازم اور اپ کی ٹیم نے بھرپور مہمان نوازی کی اپ کا بہت بہت شکریہ .
ویلنٹین کونوالوف:
اپ کی آمد کا بھی بہت شکریہ ہمیں اپ کو دوبارہ یہاں دیکھ کر خوشی ہوگی.
انٹرنیشنل
گلوبل وارمنگ : کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا۔۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔

ماسکو (اشتیاق ہمدانی)
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کئی ممالک کو قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ عالمی سطح پر غیر معمولی بارشیں تباہی پھیلا رہی ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے کم ذمے دار ممالک بدترین نتائج کا سامنا کررہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار رشیا آرکٹک کونسل کے سینئر عہدیداروں کی کمیٹی کے چیئرمین نکولائی کورچونوف نے آج ماسکو میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کورچوںوف کا کہنا تھا کہ پرما فراسٹ کا موضوع روس اور دیگر آرکٹک ریاستوں کے لیے ترجیحی موضوعات میں سے ایک ہے۔ اس صدی میں، آرکٹک باقی دنیا کے مقابلے میں 2-3 گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو گا، جس سے پرما فراسٹ پگھل جائے گا، اور اس میں جمع ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں نکلیں گی، اس طرح کرہ ارض کی آب و ہوا خراب ہو جائے گی۔ یہ منجمد مٹی پر واقع عمارتوں اور ڈھانچے کی تباہی کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہذا، پرما فراسٹ کی حالت کی نگرانی کے لیے ایک نظام بنا کر موسمیاتی تبدیلی کے منفی نتائج کو کم کرنا ایک بہت ضروری کام ہے،
پاکستانی صحافی اشتیاق ہمدانی کے اس سوال کہ
جنوبی بحر اوقیانوس میں دو بڑے آئس برگ کی صورت حال سے آپ سب واقف ہونگے، لیکن وہ ممالک جو وہاں سے بہت دور ہیں وہ بھی برائے راست موسمیاتی تباہ کاریوں کی تیز رفتار اور ہولناکی کا شکار ہو ر ہے ہیں ، پچھلے سال پاکستان میں آنے والے سیلاب سے ملک کا تیسرا حصہ پانی میں ڈوب گیا
عالمی حدت دنیا کے وجود کو درپیش ایک بحران ہے اور پاکستان کو گراؤنڈ زیرو کی حالت درپیش ہے حالانکہ (گرین ہاؤس گیس) کے اخراج کے ضمن میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
اس مسئلہ پر رشیا اور مغرب کے درمیان موجودہ حالات میں کیا ہم آہنگی ہے اور کیا مسئلہ کے حل کے لئے کوئی پائیدار کاوشیں کی جارہی ہیں ؟
اس سوال کے جواب میں نکولائی کورچونوف کا کہنا تھا کہ دنیا میں جو باہم ربط پیدا ہو رہا ہے وہ بڑھ رہا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ بالترتیب پرما فراسٹ کا پگھلنا گلیشیئرز کی سطح میں اضافے کے ساتھ منسلک ہے۔ عالمی سمندر اور اس کے مطابق ساحل پر اثر انداز ہوتا ہے، یعنی یہ پہلے سے ہی پہلی قسم کا اندازہ اور سمجھنا ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور ہمیں ان تبدیلیوں کی حرکات کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے، اگر ہمارے پاس یہ معلومات ہیں تب ہم ان خطرناک تبدیلیوں کی تیاری اور انتظام کر سکتے ہیں، اس لیے، اس صورت میں، فطری طور پر، ہم یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں جن میں نہ صرف خود آرکٹک خطے کے اطراف شامل ہیں بلکہ دیگر ممالک اور بھارت چین اور خاص طور پر پاکستان کے سائنسدانوں اور ماہرین کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ کہ انٹارکٹیکا میں کیا ہو رہا ہے اس سلسلے میں ہم ان امکانات کی حمایت کر رہے ہیں
نکولائی کورچونوف نے مزید کہا کہ قطبین اور ہمالیہ کے درمیان پیدا ہونے والے عوامل کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وی انٹارکٹیکا اور کرہ ارض کی آب و ہوا کو کس طرح متاثر کرتے ہیں ہم کس قسم کی حرکات کی توقع کر سکتے ہیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں اور وہ قدرتی آفات مون سون کی بارشیں اور اسی طرح جو کچھ ایشیائی ممالک میں ہوتا ہے وہ ظاہر ہے موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے، یہ جانتا ہے کہ سائنس کے لیے کس طرح اہم رول ادا کرسکتی ہے،
نکولائی کورچونوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس ہمالیہ سے منسلک ایشیائی ممالک – چین، بھارت، پاکستان کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور پرما فراسٹ پگھلنے کے حوالے سے ہونے والے تعاون کو اعتماد کی نظر سے دیکھتا ہے۔
22 مارچ سے 24 مارچ، روس کے شہر یاکوتسک موسمیاتی تبدیلی اور پرما فراسٹ پگھلنے پر ایک سائنسی اور عملی کانفرنس کی میزبانی کرے گا۔ جس میں مختلف ممالک سے مندوبین شریک ہونگے۔
اس مشترکہ پریس کانفرنس میں روسی وزارت خارجہ کی آرکٹک کونسل کے سینئر حکام کی کمیٹی کے چیئرمین نکولائی کورچونوف کے علاؤہ روس آرکٹک زون کی ترقی اور روسی مشرق بعید کی ترقی کے لیے وزارت کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے نفاذ کے شعبے کے ڈائریکٹر میکسم ڈانکن؛ روسی جمہوریہ ساکھا (یاکوتیا) کے مستقل نمائندہ، آندرے فیڈوتوف ، نائب چیئرمین؛
سرگئی مارتانوف ،ماحولیاتی آلودگی، پولر اور میرین آپریشنز کی نگرانی کے ڈائریکٹوریٹ کے نائب سربراہ؛ انسٹی ٹیوٹ آف پرما فراسٹ کے ڈائریکٹر کے میخائل ذیلنک، پلائسٹوسین پارک کے ڈائریکٹر نکیتا زیموو۔ نے بھی خطاب کیا۔
پریس کانفرنس میں شرکاء نے موسمیاتی تبدیلی اور پرما فراسٹ پگھلنے سے وابستہ موجودہ چیلنجز کی نشاندہی کی، اور آرکٹک میں بین الاقوامی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے امکانات کا جائزہ لیا گیا۔
- انٹرنیشنل1 year ago
سری لنکا میں مہنگائی تمام حدود عبور کرگئی ہری مرچ 1700 روپے کلو
- انٹرنیشنل1 year ago
بلغاریہ کی آبادی میں خطرناک حد تک کمی ہو گئی، اقوام متحدہ
- انٹرنیشنل1 year ago
ازبکستان اور تاجکستان ملک کے ہیلی کاپٹر واپس کریں ورنہ نقصان ہوگا، طالبان
- انٹرنیشنل1 year ago
امریکہ میں KFC نے نباتات سے تیار کردہ فرائیڈ چکن پیش کردیا