پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات تعطل کا شکار ، خواجہ آصف
اسلام آباد (صدائے روس)
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ امن مذاکرات جو استنبول میں سرحدی جھڑپوں کی روک تھام کے لیے جاری تھے، ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں۔ نجی ٹی وی جیو نیوز سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ فائر بندی اسی وقت برقرار رہ سکتی ہے جب افغان سرزمین سے حملے نہ ہوں۔ افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کے روز تصدیق کی کہ مذاکرات تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تیسرا دور جمعرات کو ترکی میں شروع ہوا تھا تاکہ گزشتہ ماہ ہونے والی مہلک سرحدی جھڑپوں کے بعد بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کیا جا سکے۔ استنبول مذاکرات سے قبل اکتوبر میں دوحہ میں پانچ روزہ مذاکرات کے دوران عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ خواجہ آصف کے مطابق، “مکمل ڈیڈلاک ہو چکا ہے۔ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے تعطل میں داخل ہو گئے ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ چوتھے دور کے لیے فی الحال کوئی منصوبہ نہیں۔ وزیرِ دفاع نے ترکی اور قطر کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دونوں ممالک کے درمیان ثالثی کی کوششیں کیں۔
ان کے بقول، “ترکی اور قطر ہمارے مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ افغان وفد بھی اصولی طور پر متفق تھا، مگر وہ تحریری معاہدے پر دستخط کے لیے تیار نہیں تھے۔ ہم صرف زبانی یقین دہانی قبول نہیں کر سکتے، یہ بین الاقوامی مذاکرات میں ممکن نہیں۔” ادھر افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ مذاکرات اس لیے ناکام ہوئے کیونکہ اسلام آباد نے کابل سے پاکستان کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری قبول کرنے کا مطالبہ کیا، جو ان کے بقول افغانستان کی “سمجھ سے باہر اور صلاحیت سے بالاتر” بات ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ، “ہماری جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، اور ہم اسے برقرار رکھیں گے۔” یاد رہے کہ جمعرات کے روز دونوں ممالک کے درمیان سرحدی علاقے اسپن بولدک کے قریب فوجی جھڑپیں ہوئیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر پہل کرنے کا الزام عائد کیا۔ گزشتہ ماہ ہونے والی شدید جھڑپوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے تھے، جو 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک کی بدترین سرحدی کشیدگی قرار دی جا رہی ہے۔ پاکستان نے افغان حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے جنگجوؤں کو پناہ دے رہی ہے، تاہم طالبان انتظامیہ اس الزام کو سختی سے مسترد کرتی ہے۔