ماسکو (صدائے روس)
ماسکو کے تاریخی “گربنوی کنال” پر رواں سال ایک بار پھر کشتی رانی کا بین الاقوامی میلہ سجا، جہاں “64 ویں بڑی ماسکو ریگاٹا – چیمپئنز کپ” کا انعقاد کیا گیا۔ اس بڑے ایونٹ کا اہتمام ماسکو کے محکمہ کھیل نے روسی فیڈریشن آف روئنگ کے تعاون سے کیا۔
اس سال یہ ایونٹ غیر معمولی رہا، جس میں 11 مختلف ممالک کے 1300 سے زائد ماہر کھلاڑیوں نے شرکت کی۔ شریک ممالک میں روس، بیلا روس، ازبکستان، قازقستان، پاکستان، آذربائیجان، ایران، کیوبا، آرمینیا، سربیا اور متحدہ عرب امارات شامل تھے۔
پاکستان کی نمائندگی کراچی بوٹ کلب کی 11 رکنی ٹیم نے کی۔ اس میں مرد و خواتین کھلاڑی شامل تھے جنہوں نے مختلف کیٹیگریز میں مقابلہ کیا اور اپنی مہارت اور جذبے سے دنیا بھر کے کھلاڑیوں کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔
ٹیم نے مجموعی طور پر دو اہم پوزیشنز حاصل کیں—ایک ایونٹ میں **دوسری** اور دوسرے میں **تیسری پوزیشن**—جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے، خاص طور پر جب وسائل اور سہولیات محدود ہوں۔
کراچی بوٹ کلب کے صدرعارف اکرام نے اشتیاق ہمدانی سے بات کرتے ہوئے کہا:
> “یہ ہمارا دوسرا سال ہے کہ ہم اس بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال ہماری خواتین ٹیم نے فورز کی کیٹیگری میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس بار ہماری ٹیم مزید مضبوط ہے، اور ہم مختلف ایونٹس میں حصہ لے رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
> “ایسے مقابلوں میں شرکت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی بین الاقوامی سطح پر **مرئیت (visibility)** بڑھتی ہے۔ ہائی لیول کا مقابلہ پرفارمنس کو بہتر بناتا ہے، اور یہ نوجوانوں کے لیے ایک بڑا تجربہ ہوتا ہے۔”
عارف اکرام نے ماسکو کے ماحول کو سراہتے ہوئے کہا:
> “یہاں نہ صرف سپورٹس کا جذبہ ہے بلکہ دوستی، امن اور تعاون کی فضا ہے۔ مقامی افراد کا رویہ بھی بہت دوستانہ ہے، اور ہم شہر کے تاریخی مقامات کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ ٹیم کے تمام ممبرز خوش اور مطمئن ہیں۔”
محمد احمد، ایک نوجوان پاکستانی کھلاڑی، نے اشتیاق ہمدانی سے بات کرتے ہوئے کہا:
> “روس آ کر عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا ایک اعزاز ہے۔ ہمیں عالمی معیار کی سہولیات دیکھنے کو ملیں اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔”
عائشہ اسلم ، جن کا یہ پہلا بین الاقوامی ایونٹ تھا، نے کہا:
> “پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ روسی منتظمین نے بہترین انتظامات کیے۔ یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ ہم بھی دنیا کے بہترین کھلاڑیوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔”
محمد ناد علی نے ایک دلچسپ پہلو بیان کرتے ہوئے کہا:
> “یہاں کے پروفیشنل کھلاڑی سائیکل پر ٹریننگ کے لیے آتے ہیں، جبکہ ہم ذرا سا بھی چلنے سے بچنے کے لیے گاڑی استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لائف اسٹائل میں ڈسپلن ہے، جس سے ہم نے سیکھا ہے کہ اگر ہمیں بھی روئنگ کو ایک پروفیشن کے طور پر لینا ہے تو ہمیں بھی زندگی میں نظم و ضبط لانا ہو گا۔”
ماہ نور، ایک اور کھلاڑی، نے کہا:
> “یہ میرا پہلا انٹرنیشنل ٹورنامنٹ ہے۔ ماحول دوستانہ ہے، مقابلہ سخت ہے، لیکن ٹریننگ نے کافی مدد دی۔ انشاءاللہ ہم اچھی پوزیشن حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں۔”
ماہ نور نے مزید کہا کہ:
> “روئنگ خواتین کے لیے جسمانی طور پر مشکل کھیل ہے، لیکن اگر جذبہ ہو تو کچھ بھی مشکل نہیں۔”
ٹورنامنٹ کے دوران پیراولمپک کیٹیگریز میں بھی مقابلے منعقد ہوئے۔ معذور کھلاڑیوں نے جس حوصلے، مہارت اور جذبے سے مقابلہ کیا، وہ دیکھنے والوں کے لیے متاثرکن تھا۔ ان مقابلوں نے یہ واضح کر دیا کہ جسمانی معذوری کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ حوصلے سے ہر حد عبور کی جا سکتی ہے۔
یہ ایونٹ صرف ایک کھیل نہیں تھا، بلکہ مختلف قوموں کے درمیان ایک **ثقافتی پل** کا کردار بھی ادا کر رہا تھا۔ پاکستانی ٹیم کی شرکت نے نہ صرف کھیل کے میدان میں، بلکہ دوستانہ تعلقات اور ثقافتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا۔
> “پاکستانی نوجوان بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ صرف ایک مقابلہ نہیں بلکہ امن، دوستی اور عالمی یکجہتی کا پیغام تھا، جس میں پاکستان نے بھرپور شرکت کی۔”