افغان جنگ میں پاکستان کی شمولیت: وقتی فائدہ یا طویل نقصان؟
اسلام آباد (صداۓ روس)
سال 1979 میں جب سویت یونین نے افغانستان پر فوجی چڑھائی کی تو یہ واقعہ نہ صرف خطے کی سیاست بلکہ عالمی توازن کے لیے بھی فیصلہ کن لمحہ ثابت ہوا۔ پاکستان، اُس وقت جنرل ضیاء الحق کے فوجی اقتدار کے تحت، اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اس فیصلے کے پیچھے کئی وجوہات تھیں: ایک طرف سوویت یونین کے گرم پانیوں تک رسائی کے خدشات تھے، تو دوسری جانب امریکہ کی طرف سے ملنے والی مالی اور فوجی امداد کی کشش بھی تھی۔ مذہبی جذبات کو ابھار کر اس جنگ کو “جہاد” کا نام دیا گیا، جس نے ریاستی بیانیے کو طاقت بخشی اور عوامی حمایت حاصل کی۔ امریکہ، سعودی عرب اور مغربی طاقتوں نے مل کر افغان مجاہدین کو مسلح کیا، جنہیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تربیت دی گئی۔ اس دوران پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد ملی اور عالمی سطح پر اس کا اسٹریٹیجک مقام مضبوط ہوا، تاہم وقت نے ثابت کیا کہ یہ کامیابیاں محض وقتی تھیں، جبکہ اس فیصلے کی قیمت پاکستان کو دہائیوں تک چکانی پڑی۔
جیسے جیسے افغان جنگ آگے بڑھی، پاکستان کے اندر کلاشنکوف اور منشیات کا کلچر عام ہو گیا۔ مہاجرین کی ایک بڑی لہر ملک میں داخل ہوئی جنہیں سنبھالنا نہ ریاست کے بس میں رہا اور نہ آج تک اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالا جا سکا۔ سب سے سنگین نتیجہ مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کی صورت میں سامنے آیا، جب جہادی تنظیمیں ریاستی مدد سے پنپتی رہیں، اور بعد میں خود ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا لیا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کو “دہشت گردی کے خلاف جنگ” میں فرنٹ لائن اتحادی بنا دیا گیا، اور یوں ملک خود میدان جنگ بن گیا۔ ہزاروں فوجی، پولیس اہلکار اور شہری لقمۂ اجل بنے، جبکہ معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ امریکی ڈرون حملے، “ڈو مور” کے مطالبات، اور خودمختاری پر سوالات اسی پالیسی کا تسلسل تھے۔ افغانستان سے روس کے انخلا کو اگرچہ ایک “کامیابی” سمجھا گیا، لیکن یہ کامیابی پاکستان کے لیے داخلی بدامنی، عالمی دباؤ اور معاشی بحران کا باعث بنی۔ آج کے ماہرین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ فیصلہ وقتی فائدے کے لیے کیا گیا، لیکن اس کی قیمت آنے والی نسلوں نے دہشت گردی، تشدد اور غیر یقینی صورتحال کی صورت میں چکائی۔
افغان جنگ کے ذریعے پاکستان نے عارضی طور پر تو عالمی سطح پر خود کو منوایا، لیکن یہ قیمت بہت بھاری تھی۔ اس تجربے سے ایک اہم سبق حاصل ہوتا ہے کہ وقتی اسٹریٹیجک مفادات کی خاطر اگر کسی قوم کی داخلی سلامتی، معیشت اور معاشرت کو داؤ پر لگا دیا جائے، تو اس کا انجام صرف پچھتاوا ہوتا ہے۔ آج کے تناظر میں پاکستان کو ضرورت ہے کہ وہ ایک خودمختار، امن پسند اور دور اندیش خارجہ پالیسی اپنائے جو وقتی فوائد کے بجائے پائیدار ترقی، داخلی استحکام اور عالمی احترام کی بنیاد رکھے۔ افغان جنگ میں کودنا ایک ایسا فیصلہ تھا جو تاریخ میں ہمیشہ ایک متنازع مگر سبق آموز مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔