انٹرنیشنل ڈیسک (صدائے روس)
افغانستان کے صوبہ بلخ کے شہر مزار شریف میں واقع ایک مسجد کے قریب زور دار دھماکے سے علاقہ دہل گیا۔ دھماکا اتنا شدید تھا کہ اطراف کی عمارتیں لرز اٹھیں اور قریبی گاڑیوں کے شیشے چکناچور ہو گئے۔
دھماکے کی شدت اور ابتدائی تباہی
عینی شاہدین کے مطابق جیسے ہی دھماکا ہوا، علاقے میں افرا تفری مچ گئی۔ مقامی لوگ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ دھماکے کے بعد ہر طرف گرد و غبار چھا گیا جبکہ چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔
چار شدید زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ایک شخص کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ہسپتال انتظامیہ کی تشویش ناک اطلاعات
ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک زخمی کی حالت تشویش ناک ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ دیگر زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ہسپتال کے باہر متاثرین کے اہل خانہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی ہے اور فضا سوگوار ہے۔
دھماکے کی نوعیت اور ابتدائی تحقیقات
طالبان حکام نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ دھماکا مسجد میں نصب شدہ ایک دیسی ساختہ دھماکا خیز ڈیوائس (IED) سے ہوا۔
تاحال کسی گروہ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔
داعش کی ممکنہ مداخلت؟
یہ بات قابل غور ہے کہ طالبان کے افغانستان میں کنٹرول سنبھالنے کے بعد بھی ملک میں داعش خراسان (ISIS-K) کے حملے جاری ہیں۔ خاص طور پر شیعہ ہزارہ برادری کو متعدد بار نشانہ بنایا گیا ہے۔
اگرچہ اس دھماکے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی، لیکن ماضی کے واقعات کی روشنی میں داعش کو ہی مشتبہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ماضی کی خونی یادیں پھر تازہ
یاد رہے کہ مزار شریف کی یہی مسجد 2022 میں بھی ایک خوفناک دھماکے کی زد میں آ چکی ہے، جس میں درجنوں نمازی شہید ہوئے تھے۔ یہ مسجد شیعہ ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہے، جو افغانستان میں اکثر دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہے۔
علاقے میں خوف اور سلامتی کے سوالات
مسلسل دہشت گرد حملوں کے باعث مزار شریف کے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ عام عوام طالبان حکومت سے سخت سیکیورٹی اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ عبادت گاہیں، اسکولز اور عوامی مقامات محفوظ رہ سکیں۔