آذربائیجان کے انسانی حقوق کے محتسب ڈاکٹر صبینہ علی اوا نے بچوں، معذور افراد اور خواتین کے حقوق کے تحفظ، گھریلو تشدد کی روک تھام اور ابتدائی شادیوں کے خاتمے کے لیے جاری اصلاحات اور اقدامات پر روشنی ڈالی۔ اس خصوصی انٹرویو میں انہوں نے شکایات کے مؤثر نظام، آگاہی مہمات اور معاشرتی شمولیت کے اقدامات کی تفصیل پیش کی ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کے فروغ اور شفافیت کے لیے سنگِ میل ثابت ہو رہے ہیں۔
آن لائن تجزیاتی و معلوماتی اخبار “نووایا ایپوخا” کے لیے آذربائیجان جمہوریہ کی انسانی حقوق کی محتسب (آمبدسمین)، بیرسٹر سبینہ علیاوا کا جمیلہ چبوتاریووا کو خصوصی انٹرویو-
(ترجمہ : اشتیاق ہمدانی)
سبینہ علیاوا: “بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کا شعبہ محتسب کی سرگرمیوں میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے”
— صبینہ خانم، خوش آمدید! آپ کی مصروفیات کے باوجود ہمیں وقت دینے پر شکریہ۔
— مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کے اہم سوالات کا جواب دے رہی ہوں۔
— آج کل خاص طور پر معذور افراد، بشمول بچوں، کے حقوق کے تحفظ اور ان کے نفاذ پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس بارے میں تفصیل سے بتائیے۔
— معذور افراد کے حقوق کا تحفظ عصرِ حاضر کے عالمی انسانی حقوق کے ایجنڈے میں ایک اہم ترجیح ہے۔ آذربائیجان میں محتسب کو وسیع اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ ان حقوق کی ضمانت دی جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کے “کنونشن برائے حقوقِ معذورین” کے مطابق ہر ریاست پر لازم ہے کہ وہ آزاد مانیٹرنگ کا نظام قائم کرے۔ 2023 میں آئینی قانون میں کی گئی ترمیم کے بعد محتسب کو “کنونشن برائے حقوقِ معذورین” اور “کنونشن برائے حقوقِ طفل” کے نفاذ، مساوات کی فراہمی اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے باضابطہ حیثیت ملی۔
اس مقصد کے لیے خصوصی مانیٹرنگ گروپ تشکیل دیے گئے، جو اداروں میں جا کر معذور افراد کے حالات، طبی سہولتوں، قانونی امداد اور دیگر بنیادی حقوق کا جائزہ لیتے ہیں۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر کئی اصلاحات ہوئیں، سماجی و معلوماتی سہولیات بہتر ہوئیں اور عوامی رویّے میں مثبت تبدیلیاں آئیں۔
مزید یہ کہ محتسب نے سفارش کی ہے کہ آٹزم کے شکار افراد کے لیے ریاستی پروگرام بنائے جائیں، سماجی بحالی کے مراکز میں اضافہ ہو اور سماجی ورک کے ادارے کو مضبوط بنایا جائے۔
محتسب نے اس بات پر زور دیا کہ معذور افراد کے لیے ٹرانسپورٹ اور سماجی انفراسٹرکچر میں سہولتیں ہونی چاہئیں۔ پاندوس اور پُل بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں، میٹرو اور پیدل کراسنگ میں آسانیاں فراہم کی جائیں، خصوصی ٹریفک سگنل نصب ہوں اور معلوماتی مواد سب کے لیے قابلِ رسائی بنایا جائے۔
سبینہ علیاوا نے بتایا کہ صحت اور سماجی تحفظ کے نظام کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کے لیے نگرانی جاری ہے۔ معذور اور کمزور طبقات کی شکایات کا فوری جائزہ لیا جاتا ہے اور تجاویز حکومت تک پہنچائی جاتی ہیں۔
ذہنی صحت کے مسائل کو بھی اولین ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی ورکنگ گروپ بنایا گیا ہے جس میں ماہرین، سول سوسائٹی اور ریاستی ادارے شامل ہیں۔
— گھریلو تشدد کے حوالے سے محتسب کا کیا کردار ہے؟
— گھریلو تشدد انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ آذربائیجان نے خواتین و بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدوں پر دستخط کر کے اس کی روک تھام کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
محتسب کے دفتر میں گھریلو تشدد کی شکایات کا فوری جائزہ لیا جاتا ہے، متعلقہ اداروں کو مطلع کیا جاتا ہے اور قانونی اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ میں 2025–2029 کے لیے گھریلو تشدد کے خلاف قومی منصوبۂ عمل، اور 2025–2027 کے لیے صنفی مساوات کا منصوبہ شامل ہے۔
ابتدائی اور جبری شادیوں کے خلاف اقدامات
— کم عمری میں شادی کے مسئلے پر کیا کام کیا جا رہا ہے؟
— ابتدائی اور جبری شادی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ شکایات کے فوری ازالے کے ساتھ ساتھ محتسب نے کئی تجاویز دی ہیں، جن میں سب سے اہم شادی کی عمر کم کرنے سے متعلق دفعہ کو قانون سے نکالنے کی تجویز تھی۔ یہ تجویز 2024 میں منظور ہونے والی اصلاحات میں شامل کر لی گئی۔
مزید برآں، ایسے والدین اور عہدیداروں کے خلاف سزائیں سخت کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے جو بچوں کی کم عمری میں شادی میں معاونت کرتے ہیں۔
سبینہ علیاوا نے کہا کہ ہر سال 18 مئی سے 18 جون تک “مہینہ برائے انسانی حقوق” اور 20 اکتوبر سے 20 نومبر تک “مہینہ برائے حقوقِ طفل” منایا جاتا ہے۔ اس دوران ملک بھر میں سیمینار، نمائشیں، مقابلے اور آگاہی مہمات چلائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جا سکے۔
— عام شہری محتسب سے کیسے رجوع کر سکتے ہیں؟
— عوام کے لیے 24 گھنٹے فعال کال سینٹر قائم ہے۔ اس کے علاوہ آن لائن درخواستیں اور شکایات بھی وصول کی جاتی ہیں۔ صرف 2024 میں 12 ہزار سے زائد شکایات ڈیجیٹل ذرائع سے موصول ہوئیں۔
شکایات کا فوری جائزہ لے کر انہیں متعلقہ اداروں کو بھیجا جاتا ہے اور نتائج کو شفاف طریقے سے شائع کیا جاتا ہے۔
محتسب نے زور دیا کہ بچوں کی پرورش صحت مند اور محفوظ ماحول میں ہونی چاہیے۔ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر بچوں سے متعلق کسی بھی مواد کی اشاعت سے پہلے ان کے مفاد اور پرائیویسی کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا مواد شائع ہونا چاہیے جو بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں مددگار ہو اور انہیں معاشرتی زندگی میں مثبت انداز میں شریک کرے۔
— صبینہ خانم، ایک بار پھر شکریہ کہ آپ نے ہمارے قارئین کے لیے تفصیل سے بات کی۔
— میں بھی آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے اتنے اہم سوالات اٹھائے۔
#حقوق_بچوں #حقوق_معذورین #انسانی_حقوق #آذربائیجان #Ombudsman #سبینہ_علیاوا #حقوق_خواتین #گھریلو_تشدد_روک تھام #ابتدائی_شادی_کے_خلاف #معاشرتی_شمولیت #آگاہی_مہمات #نفاذ_حقوق #MentalHealth #InclusiveSociety #HumanRightsAwareness #ChildRights #SocialJustice #DisabilityRights