جرمن چانسلر کے ’’جنگی مجرم‘‘ والے بیان پر صدر پوتن کا ردعمل
ماسکو(صداۓ روس)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے جرمن چانسلر فریڈرک میرٹز کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے، جس میں انہیں ’’جنگی مجرم‘‘ کہا گیا تھا۔ پوتن کے مطابق میرٹز کا یہ بیان مغرب کی ذمہ داریوں سے فرار کی ایک ناکام کوشش ہے۔ بدھ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر پوتن نے کہا میرے خیال میں [میرٹز کا بیان] ایک ناکام کوشش ہے اپنے آپ کو، یا شاید اپنی ذات کو نہیں بلکہ اپنے ملک اور مجموعی طور پر مغربی دنیا کو اس المیے کی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار دینے کی، جو آج یوکرین میں رونما ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ جرمن چانسلر نے نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ پوتن ’’ہمارے دور کے سب سے بڑے جنگی مجرم‘‘ ہیں۔ انہوں نے روس کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جنگ بندی کے امکان پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور مغرب پر زور دیا کہ وہ روس کو ’’اقتصادی طور پر کمزور‘‘ کرے۔ میرٹز کے مطابق ماسکو کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک پر محصولات عائد کرکے کریملن کو مذاکرات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے خبر رساں ایجنسی تاس کو بتایا کہ ’’میرٹز نے صدر پوتن کے بارے میں نہایت بری باتیں کی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اب ماسکو برلن کی رائے اور تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔
خیال رہے کہ مغربی رہنماؤں کی جانب سے صدر پوتن پر اس سے قبل بھی سخت الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ سنہ 2023 میں امریکہ کے سابق صدر جو بائیڈن نے پوتن کو ’’ڈکٹیٹر‘‘ اور ’’خالص بدمعاش‘‘ قرار دیا تھا، جو ان کے بقول ’’یوکرین کے عوام کے خلاف ایک غیر اخلاقی جنگ لڑ رہے ہیں‘‘۔ بائیڈن نے انہیں ’’جنگی مجرم‘‘ بھی کہا تھا۔روس مسلسل اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ یوکرین تنازعہ دراصل نیٹو کی ایک پراکسی جنگ ہے۔ ماسکو کے مطابق مغرب کی فوجی امداد اور بڑھتی ہوئی عسکری زبان صرف خوف پھیلانے اور جنگی تیاریوں پر غیر معمولی اخراجات کو جائز ٹھہرانے کے حربے ہیں۔ روس نے بالخصوص جرمنی کی حالیہ دفاعی پالیسیوں پر تنقید کی ہے، جن کے تحت جرمن فوجی صلاحیتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا رہا ہے۔ ماسکو کے مطابق برلن کا ’’روسی خطرے‘‘ کا بیانیہ حقیقت سے دور اور محض سیاسی پروپیگنڈا ہے۔