پوتن- زیلنسکی ملاقات ممکن ہے، کریملن
ماسکو (صداۓ روس)
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ملاقات ممکن ہے، بشرطیکہ روس اور یوکرین کے مذاکراتی وفود کے درمیان جاری بات چیت میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت اور ٹھوس معاہدے طے پائیں۔
یہ بیان استنبول میں روس اور یوکرین کے وفود کے درمیان ترکی کی ثالثی میں ہونے والی دو گھنٹے طویل بات چیت کے بعد سامنے آیا ہے، جو 2022 کے بعد پہلا براہِ راست مذاکراتی سیشن تھا۔ بات چیت کے دوران دونوں ممالک نے جنگ بندی کی تجاویز کا تبادلہ کیا اور قیدیوں کے تبادلے پر بھی اتفاق ہوا۔ روسی مذاکرات کار ولادیمیر میدنسکی کے مطابق ماسکو ان بات چیت کے نتائج سے مطمئن ہے اور کییف کے ساتھ رابطے دوبارہ بحال کرنے کے لیے تیار ہے۔
پیسکوف کا کہنا تھا کہ صدر پوتن اور زیلنسکی کی ملاقات “صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریقوں کے وفود کسی واضح اور قابلِ دستخط معاہدے تک پہنچیں۔” ساتھ ہی انہوں نے یوکرین میں قانونی اختیار کی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ زیلنسکی کی مدتِ صدارت ختم ہو چکی ہے اور انہوں نے مارشل لا کے باعث نئے انتخابات نہیں کروائے، جس بنا پر روس انہیں “غیر قانونی” تصور کرتا ہے۔
پیسکوف نے مذاکرات کی اندرونی تفصیلات پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ عمل خفیہ اور خاموشی سے چلنا چاہیے تاکہ اس کی افادیت برقرار رہے۔ امریکی خبررساں ادارے بلومبرگ کے مطابق، روس نے یوکرین کے سامنے شرائط رکھی ہیں جن میں غیر جانبدار ریاست کا درجہ، غیر ملکی افواج اور جوہری ہتھیاروں کی ممانعت، سابقہ علاقوں سے دستبرداری اور ان کی روسی حیثیت کو تسلیم کرنا شامل ہیں۔
ابتدائی طور پر یوکرین اور اس کے مغربی اتحادیوں نے بغیر کسی شرط کے 30 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا، جسے روس نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ یوکرین کو ازسرنو منظم ہونے کا موقع دے گا۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشورے کے بعد زیلنسکی نے مذاکرات میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی۔