پوتن کی جنگ بندی کی پیشکش یوکرین کے لیے “امتحان” ہے، کریملن
ماسکو(صداۓ روس)
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس کی جانب سے 9 مئی کی فتح کے دن کی مناسبت سے دی گئی 72 گھنٹوں کی جنگ بندی کی پیشکش یوکرین کے لیے ایک “امتحان” ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا کییف واقعی تنازع کے پرامن حل میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔ صدر ولادیمیر پوتن نے پیر کے روز اعلان کیا تھا کہ 8 مئی سے 10 مئی تک جنگ بندی کی جائے گی تاکہ نازی جرمنی پر سوویت یونین کی فتح کی 80ویں سالگرہ کو منایا جا سکے۔ ماسکو کے مطابق، یہ پیشکش “انسانی ہمدردی کے جذبے” کے تحت دی گئی ہے اور اسے “کییف کے ساتھ بغیر کسی پیشگی شرط کے براہ راست مذاکرات کے آغاز کا موقع” بھی بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم، یوکرین نے اسے روس کی ایک “چال” قرار دیا ہے۔
ہفتے کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیسکوف نے کہا کہ جنگ بندی کی پیشکش اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ہے کہ آیا یوکرین سنجیدگی سے امن قائم کرنے کی کوششوں کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا، “یوکرینی حکام کا ردعمل یوکرین کی امن کے لیے آمادگی کا امتحان ہے۔ ہم کسی مبہم جواب کے منتظر نہیں بلکہ واضح بیانات اور سب سے بڑھ کر ایسے اقدامات کے منتظر ہیں جو تعطیلات کے دوران کشیدگی میں کمی کی طرف اشارہ کریں۔”
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے روس کی پیشکش کو “چالاکی سے کی گئی ایک اور کوشش” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد روس کے 9 مئی کی فتح کی پریڈ کے دوران امن یقینی بنانا ہے۔ اس تقریب میں چینی صدر شی جن پنگ اور سربیا کے صدر الیگزینڈر ووسچچ سمیت متعدد عالمی رہنما شرکت کریں گے۔
زیلنسکی نے اس کے بجائے فوری 30 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے الزام لگایا ہے کہ زیلنسکی یہ مطالبہ یوکرینی افواج کو پیچھے ہٹنے اور دوبارہ منظم ہونے کا وقت دینے کے لیے کر رہے ہیں۔ زیلنسکی نے یہ بھی اشارہ دیا کہ کیف ماسکو میں جشن میں شرکت کرنے والے غیر ملکی رہنماؤں کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتا، جس پر ماسکو نے سخت ردعمل دیا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے زیلنسکی کے بیان کو “براہ راست دھمکی” قرار دیا۔
یہ سارا معاملہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماسکو اور کیف دونوں کے ساتھ سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ پائیدار امن معاہدے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ ٹرمپ انتظامیہ دونوں فریقین پر زور دے رہی ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات میں شامل ہوں۔