اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

بھارت میں مودی حکومت کے خلاف اٹھتے ہوئے سوالات اور پاکستانی مؤقف کی تائید

شاہ نواز سیال
پہلگام کا واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سعودی عرب کے دورے پر تھے دوسری طرف امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اپنی اہلیہ اوشا وینس اور بچوں کے ہمراہ چار روزہ بھارتی دورے پر آئے ہوئے تھے جبکہ بھارت بھر میں وقف بل قانون کے خلاف مسلمانوں کے زبردست احتجاج کا سلسلہ جاری تھا اور سکھ کمیونٹی مسلمانوں کے ساتھ احتجاج میں شریک تھی احتجاج کا سلسلہ پورے بھارت میں پھیل چکا تھا مودی حکومت پریشان تھی بہرحال جیسے ہی مقبوضہ و کشمیر پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا نیندر مودی اپنا دورہ سعودی عرب مختصر کرکے واپس آگئے-
نیندر مودی نے ایئرپورٹ پر ہی وزیرخارجہ ایس جئے شنکر، مشیر قومی سلامتی اجیت ڈوول اور سیکریٹری خارجہ وکرم مسری کے ساتھ پہلگام واقعہ کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس منعقد کیا اور اسی شام کو سی سی ایس کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں اور پاکستان کے خلاف سفارتی سطح پر پانچ بڑے اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے عالمی معاہدوں میں شامل یکطرفہ سندھ طاس معاہدہ کی معطلی کا اعلان کرتے ہیں اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹے کے اندر اندر بھارت چھوڑ دینے کا حکم دیتے ہیں ساتھ یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ کہ پاکستان میں موجود بھارتی شہری یکم مئی تک اٹاری چیک پوسٹ کے راستے واپس آسکتے ہیں-
مودی حکومت پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات دفاعی، فوجی، بحری اور فضائیہ افسران کو ناپسندیدہ قرار دے دیا جاتا ہے ہائی کمیشن کے عملہ کو 55 سے کم کر کے 30 کرنے کا بھی اعلان کردیا جاتاہے جواب میں پاکستان کا ردعمل بھارتی ردعمل سے زیادہ موئثر ہوتا ہے پاکستان کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ اگر پاکستان کے حصہ کا پانی روکا گیا تو اسے جنگی اقدام تصور کیا جائے گا ساتھ ہی پاکستان تمام ہندوستانی شہریوں کو 48 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پہلگام واقعہ پر تقریرکا انگریزی ترجمہ کچھ یوں ہے “میں جنھوں نے بھی اس بہیمانہ کارروائی کا ارتکاب کیا انھیں انصاف کا سامنا کرنا ہوگا انھیں بخشا نہیں جائے گا ان کا شیطانی منصوبہ کبھی کامیاب نہ ہوگا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ہمارا عزم ناقابل تسخیر ہے اور وہ مزید مضبوط ہوگا‘‘۔
بھارتی وزیرداخلہ اور وزیر دفاع نے بھی اپنی ناکامی اور بھارتی انٹیلیجنس فیلیئر کو تسلیم کرنے کی بجائے سخت الفاظ پر مبنی بیان میں پاکستان پر الزام عائد کردیا مودی سے لے کر امیت شاہ، راجناتھ سنگھ اور پورے بی جے پی قائدین جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے برعکس بھارتیوں سیاسی پارٹیوں کے مرکزی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پہلگام دہشت گردانہ واقعہ کے ذمہ دار مودی، امیت شاہ اور راج ناتھ سنگھ ہیں جس طرح انہوں نے بھارت میں فرقہ پرستی کا زہر پھیلایا جس طرح مودی اور امیت شاہ نے اپوزیشن کا صفایا کیا اپوزیشن قائدین کو گرفتار کروایا اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو توڑنے میں مصروف ہیں ایسے میں بلا کسی جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلگام میں جو کچھ ہوا اس کے لئے یہ دونوں ذمہ دار ہیں۔
انھوں نے ببانگ دہل یہ بھی کہاکہ نیندر مودی بھارتی وزیراعظم کی حیثیت سے ناکام ہوچکے ہیں وہ 26 لوگوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں انھیں فوری استعفیٰ دے دینا چاہئے۔
شیوسینا کے مرکزی رہنما سنجے راوت نے پرزور انداز میں یہ بھی کہاکہ یہ دہشت گرد حملہ بی جے پی کی زہریلی سیاست کا نتیجہ ہے
اگر ہم زہریلی سیاست کی بات کرتے ہیں تو اس سیاست کے ذریعہ ملک میں دس گیارہ برسوں سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے گاؤ رکھشا کے نام پر اب تک درجنوں مسلمانوں کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا ہے ملک میں شیرخوار لڑکیوں سے لے کر 75 سالہ خواتین کی عصمتیں محفوظ نہیں ہیں ہندو بیواؤں کا بُرا حال ہے ان سنگین مسائل پر توجہ دینے اور ملک میں انسانیت کو بچانے کے بجائے مودی حکومت نے مذہب پر مبنی مسلم مخالف شہریت ترمیمی قانون / این آر سی منظور کیا گیا۔ بھارت کے زیر انتظام واحد مسلم اکثریتی ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت دستور کی دفعہ 370 کو منسوخ کرکے ریاست کے ٹکڑے کردیئے گئے ہیں تیسری طلاق کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا قانون منظور کیا گیا اب مسلمانوں کو ایک نیا زخم دینے کی خاطر وقف ترمیمی قانون 2025 منظور کروایا گیا جس سے مودی حکومت کی مسلم دشمنی کا اظہار ہوتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے خلاف قوانین بنانا ہی مودی حکومت کا مقصد ہے؟ ایک طرف فرقہ پرست درندے انسانیت کو تار تار کررہے ہیں دوسری طرف خوشامدی میڈیا مودی حکومت کی ہر ناکامی کو کامیابی کی شکل میں پیش کررہا ہے کسی میں مودی سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کہ آپ نے پہلگام دہشت گردانہ واقعہ پر جو کل جماعتی اجلاس منعقد ہوا اس میں شرکت کرنے کی بجائے بہار کیوں چلے گئے؟ جہاں اسی سال کے آخر میں انتخابات منعقد ہونے والے ہیں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مودی حکومت بھارت کو درپیش اہم مسائل پر توجہ دینے کے بجائے صرف مسلمانوں سے ہمدردی کے بہانہ ان کے خلاف اقدامات کررہی ہے اور ان کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے جیسے اقدامات کا کر رہی ہے یہ وہ سوال ہیں جو مودی حکومت سے اپوزیشن قائدین بار بار کررہے ہیں شائد اس وجہ سے سنجے راوت نے پہلگام دہشت گرد واقعہ کے لئے نیندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو ذمہ دار قرار دیا ہے یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ جب بھی کوئی امریکی لیڈر ہندوستان کا دورہ کرتا ہے تو بھارت میں دہشت گرد حملے اور فرقہ وارانہ فسادات کے بدترین واقعات کیوں پیش آتے ہیں؟ سال 2010 میں جب امریکی صدر نے ہندوستان کا دورہ کیا تب کشمیر میں 36 سکھوں کو قتل کردیا گیا تھا جب ٹرمپ ہندوستان آئے تو دہلی فسادات میں درجنوں لوگ مارے گئے اب امریکی نائب صدر ڈی جے وینس کے بھارت دورہ پر آئے تو پہلگام میں دہشت گردانہ واقعہ پیش آگیا اصل میں نیندر مودی گزشتہ بہت عرصے سے اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے اس طرح کے فالس فلیگ آپریشن ترتیب دیتے رہتے ہیں ماضی میں اس طرح کے کئی بار ڈھونگ رچائے گئے ہیں گجرات فسادات سے لے کر حالیہ اشتعال انگیزی تک
بہرحال نیندر مودی جب سے اقتدار میں آئے ہیں بھارت میں ایسے بے شمار حملے ہوئے ہیں اب ہم نیندر مودی کے ادوار کا مختصر جائزہ لیتے ہیں –
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بھارتی سیاست میں ایک اہم تبدیلی دیکھنے میں آئی مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے مسلمانوں کے خلاف سخت گیر ہندو قوم پرست ایجنڈا کو اپنایا جس میں مسلمانوں کے حقوق پر متعدد بار حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں حکومت نے کئی ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا جو مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی نشاندہی کرتی ہیں۔
مودی حکومت نے 2019 میں شہریت ترمیمی ایکٹ متعارف کرایاجس کے تحت تین مسلم اکثریتی ممالک سے ہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی پناہ گزینوں کو بھارتی شہریت دینے کا حق دے دیا گیا اگرچہ مسلمانوں اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیاگیا اس قانون کے خلاف بھارت بھر میں مسلمانوں نے شدید احتجاجی مظاہرے کیے کیونکہ مسلمانوں کو اس قانون سے محروم گیا تھا یہ قانون بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک چیلنج بن گیا جس کے ذریعے مسلمانوں کو اپنے شہریت کے دستاویزات فراہم کرنے کے لیے کہا گیا اور جو لوگ ایسا نہیں کر پائے، انہیں شہریت سے محروم کر دیا گیا۔
مودی اور ان کی پارٹی کے کئی اہم رہنما مسلم مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں جن میں مسلمانوں کے پاکستان جانے یا ملک دشمن ہونے کے الزامات شامل ہیں۔ ان بیانات نے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔
مودی حکومت نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کو بھی محدود کیا ہوا ہےمختلف ریاستوں میں مسلمان خواتین کے حجاب پہننے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور مدارس کی نگرانی کو بھی بڑھا دیا گیا ہےنریندر مودی کی مسلم کش پالیسیوں پر بھارت کے مختلف طبقوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے اپوزیشن جماعتیں، سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان پالیسیوں کو مسلمانوں کے حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
کانگریس پارٹی نے سی اے اے، این آر سی اور مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کی ہے کانگریس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں سے بھارت کے آئینی اصولوں اور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
کمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور دیگر بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی ان پالیسیوں کو اقلیتی فرقہ کے خلاف قرار دیتے ہوئے انہیں بھارت کے سیکولر ڈھانچے کے خلاف ایک سنگین حملہ سمجھا ہے ان جماعتوں نے بھارت کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کئی احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے گروپوں نے بھی مودی حکومت کی مسلم کش پالیسیوں کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں سے بھارت میں اقلیتوں کے لیے ایک غیر محفوظ ماحول پیدا ہو گیا ہےمختلف عالمی تنظیموں نے بھی مودی حکومت کی پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔
بھارت میں مختلف اسلامی تنظیموں نے بھی مودی حکومت کے اقدامات کے خلاف آواز بلند کی ہے ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا ہےاور اس سے بھارت میں مسلمانوں کا سماجی اور سیاسی مقام متاثر ہو رہا ہے-

Share it :