ویمبلڈن میں ریکارڈ گرمی: کھلاڑی اور شائقین شدید موسم سے پریشان
ماسکو (انٹرنیشنل ڈیسک)
لندن کے تاریخی ویمبلڈن ٹینس ٹورنامنٹ کا آغاز اس سال کی سب سے گرم دن کے ساتھ ہوا، جب پیر کے روز درجہ حرارت دوپہر سے قبل ہی 29.7 ڈگری سینٹی گریڈ (85.5 فارن ہائیٹ) تک پہنچ گیا — جو گزشتہ 147 سالہ تاریخ میں افتتاحی دن کی سب سے زیادہ گرمی ثابت ہوئی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اگلے دو روز تک درجہ حرارت 33 سے 34 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہنے کی توقع ہے، جو 2015 میں ریکارڈ شدہ 35.7 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔
گرمی کے ان شدید حالات میں کھلاڑیوں کو غیر معمولی جسمانی مشقت کا سامنا رہا۔ جرمنی کی ایوا لیس نے کہا: “یہ بہت مشکل تھا۔ مجھے اپنے ہاتھوں سے پسینے کی وجہ سے ریکٹ پھسلتا محسوس ہو رہا تھا۔ گھاس پر اتنی گرمی میں کھیلنا پہلی بار ہے اور ٹانگوں پر بہت دباؤ پڑتا ہے۔ اس شدید گرمی کا اثر شائقین پر بھی پڑا۔ مشہور کھلاڑی کارلوس الکاراز کے میچ کے دوران ایک شائق کو طبی امداد کی ضرورت پڑی جس پر کھیل روک دیا گیا۔ الکاراز خود پانی لے کر متاثرہ شائق کے پاس گئے، جس کی نشست سورج کی تیز روشنی میں تھی۔
ویمبلڈن انتظامیہ نے “ہیٹ رول” نافذ کر دی، جو درجہ حرارت 30.1 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کرنے پر لاگو ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے تحت کھلاڑیوں کو 10 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ کورٹ سے باہر جا کر خود کو تازہ کر سکیں، تاہم اس دوران نہ تو کوچنگ کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی طبی امداد کی۔ ماحولیاتی فزیالوجی کے ماہر ڈاکٹر کرس ٹائلر کے مطابق: “زیادہ گرمی نہ صرف جسمانی برداشت کو متاثر کرتی ہے بلکہ دماغی کارکردگی پر بھی اثر ڈالتی ہے، جس سے فیصلے کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ ڈنمارک کے ایلمر مولر اور امریکہ کے فرانسس ٹیافو نے بھی گرمی کے باوجود اچھی کارکردگی دکھائی۔ ٹیافو نے کہا میں نے میچ کے دوران چار یا پانچ بار اپنی شرٹ بدلی، لیکن گرمی اتنی شدید نہیں لگی جتنی توقع تھی۔
برطانیہ کی کھلاڑی سونے کارٹل نے اعتراف کیا کہ وقفے پر لباس تبدیل نہ کرنا ایک “نو آموز غلطی” تھی، تاہم انہوں نے آئس ٹاولز اور ٹھنڈے مشروبات سے مدد لی۔ گرمی کا یہ اثر نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ شائقین پر بھی نظر آیا۔ کچھ لوگ صبح 6:30 بجے سے قطار میں کھڑے رہے اور سات گھنٹوں بعد اندر داخل ہوئے۔ ایک شائق پال شایا نے بتایا ہم جتنے پانی پی سکتے تھے پیتے رہے، مگر پھر بھی گرمی برداشت کرنا مشکل تھا۔ لوگ قطار میں جگہ جگہ لیٹے ہوئے تھے۔
گرمی کی یہ لہر لندن کے لیے غیر معمولی ہے، مگر دنیا کے دیگر ٹینس مقابلوں جیسے آسٹریلین اوپن اور یو ایس اوپن میں کھلاڑی پہلے بھی ایسی شدید گرمی کا سامنا کر چکے ہیں۔ تاہم برطانوی شائقین کے لیے یہ تجربہ خاصا نیا اور چیلنجنگ رہا، اور ماہرین نے ہدایت کی کہ لوگ دھوپ سے بچاؤ کے لیے ٹوپیاں، دھوپ سے بچاؤ کی کریم اور پانی اپنے ساتھ رکھیں۔