روبل کی پرواز: امریکی ڈالر کے مقابلے میں دو برس کی بلند ترین سطح پر
ماسکو (صداۓ روس)
تیل کی قیمتوں میں اضافے اور امن مذاکرات کی خبروں نے روسی کرنسی کو مستحکم کر دیا. روسی کرنسی روبل نے جمعرات کے روز امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو برسوں کی بلند ترین سطح حاصل کر لی، جس کی بنیادی وجوہات میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روس کی سفارتی پیش رفت شامل ہیں۔ جمعرات کی دوپہر تک روبل کی قیمت اٹھہتر فی ڈالر سے نیچے آ گئی، جو کہ مئی دو ہزار تیئیس کے بعد سب سے مضبوط سطح ہے۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ کئی مہینوں سے جاری روبل کی تدریجی مضبوطی کا نتیجہ ہے۔
بینک “پروم سویاز” کے ماہر معاشیات ییوگینی لوکتیوخوف کے مطابق، روس کی جانب سے امن یادداشت کی تیاری اور تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ روبل کی مضبوطی کے بڑے عوامل ہیں۔ انہوں نے یہ بات روسی اقتصادی روزنامہ آر بی کے کو انٹرویو میں کہی۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے تجویز دی ہے کہ یوکرین کے ساتھ آئندہ امن مذاکرات دو جون کو استنبول میں منعقد کیے جائیں۔ دوسری جانب، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ وہ روس پر پابندیاں عائد نہیں کریں گے اور اس تنازعے کے جلد حل کے خواہاں ہیں۔
تیل کی عالمی قیمتوں میں بہتری بھی روبل کو سہارا دینے میں مددگار رہی ہے۔ برینٹ خام تیل — جو کہ روسی برآمدات کا بنیادی پیمانہ ہے — کی قیمت ایک اعشاریہ دو فیصد بڑھ کر پینسٹھ اعشاریہ اڑسٹھ ڈالر فی بیرل ہو گئی۔ لوکتیوخوف کا کہنا ہے کہ یہ عوامل ماہ کے اختتام پر عموماً درپیش غیر ملکی زرمبادلہ کی کمی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کافی ہیں۔
روسی برآمد کنندگان ماہ کے آخر میں مقامی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے غیر ملکی کرنسی کو روبل میں تبدیل کرتے ہیں، جو روبل کی قدر کو مزید تقویت فراہم کرتا ہے۔ سرمایہ کاری ادارے “صیفرہ بروکر” کی ماہر معاشیات ناتالیا پیرییوا کے مطابق، مارکیٹ میں زرمبادلہ کی مناسب فراہمی اور غیر ملکی کرنسی کی کم طلب بھی روبل کی حالیہ مضبوطی کا سبب ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق، اگر سفارتی حالات مثبت رہے تو روبل کی قدر ماہِ رواں میں پچھتر فی ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امن مذاکرات میں عملی پیش رفت نہ ہوئی تو یہ بہتری عارضی ثابت ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان اعلیٰ سطحی سفارتی روابط بحال ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے، صدر ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان دو گھنٹے تیس منٹ طویل ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جسے دونوں رہنماؤں نے ثمرآور قرار دیا۔
اسی ماہ کے آغاز میں روس اور یوکرین کے وفود نے استنبول میں براہِ راست مذاکرات کیے، جو کہ دو ہزار بائیس میں کیئو کی یکطرفہ علیحدگی کے بعد پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں دونوں ممالک نے اب تک کا سب سے بڑا قیدیوں کا تبادلہ کیا، جس میں ایک ہزار قیدی ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔
روبل کی حالیہ مضبوطی روسی معیشت کے لیے ایک خوش آئند اشارہ ہے، اور اگر امن مذاکرات اور تیل کی قیمتوں میں استحکام برقرار رہا، تو اس کا اثر دیگر اقتصادی شعبوں پر بھی مثبت پڑ سکتا ہے۔