اہم خبریں
تازہ ترین خبریں، باخبر تجزیے، اور عالمی حالات کی جھلک — صرف "صدائے روس" پر، جہاں ہر خبر اہم ہے!

روس تاریخ میں پہلی بار پورے مغرب کے خلاف تنہا برسرپیکار ہے، سرگئی لاوروف

Sergey Lavrov

روس تاریخ میں پہلی بار پورے مغرب کے خلاف تنہا برسرپیکار ہے، سرگئی لاوروف

ماسکو(صداۓ روس)
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو تاریخ میں پہلی بار پورے مغرب کے خلاف تنہا لڑنا پڑ رہا ہے، اور ایسی صورتحال میں روس کو صرف اپنی طاقت پر انحصار کرنا ہوگا۔ یہ بات انہوں نے پیر کے روز منعقدہ ’ٹریٹری آف میننگز‘ نامی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ لاوروف نے کہا کہ 2022 میں یوکرین تنازع کے شدت اختیار کرنے کے بعد روس کو ایک ایسی غیر معمولی جغرافیائی سیاسی صورت حال کا سامنا ہے جس نے مغرب کے ساتھ محاذ آرائی کو شدید تر بنا دیا ہے۔ سرگئی لاوروف نے کہا ہمارا سب سے بڑا ہدف دشمن کو شکست دینا ہے۔ پہلی بار تاریخ میں، روس پورے مغرب کے خلاف اکیلا لڑ رہا ہے۔ پہلی عالمی جنگ اور دوسری عالمی جنگ میں ہمارے اتحادی تھے۔ اب میدانِ جنگ میں ہمارے ساتھ کوئی اتحادی نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں صرف خود پر بھروسا کرنا ہوگا اور کسی قسم کی کمزوری کی گنجائش نہیں چھوڑی جا سکتی۔ انہوں نے واضح کیا کہ روس یوکرین کے تنازع کی بنیادی وجوہات، بالخصوص اپنی سیکیورٹی سے متعلق تحفظات پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا ہم اپنے جائز مطالبات پر قائم ہیں۔ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں بند ہونی چاہئیں۔ نیٹو کی توسیع یکسر بند ہونی چاہیے۔ نیٹو پہلے ہی ہماری سرحدوں تک پہنچ چکا ہے، حالانکہ وعدے اور بین الاقوامی معاہدے اس کے برعکس تھے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی سیاسی تصفیے میں زمینی حقائق یعنی نئی علاقائی صورت حال کو تسلیم کرنا ہوگا۔ سرگئی لاوروف نے مغرب کے طرزِ عمل کو بچپن کے غنڈوں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا جب بچپن میں محلے میں کھیلتے وقت اچانک کوئی بڑا لڑکا آتا ہے، جو عمر میں تین چار سال بڑا ہوتا ہے، اور چھوٹے بچوں کو دوڑاتا ہے، تو یہی کچھ مغرب اس وقت دنیا کے ساتھ کر رہا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ ماسکو متعدد بار کہہ چکا ہے کہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع اور یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش اس تنازع کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ روس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مغرب کی جانب سے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی سے جنگ طول پکڑ رہی ہے، لیکن اس سے نتیجہ تبدیل نہیں ہوگا، جبکہ نیٹو اس طرح براہ راست اس تنازع کا حصہ بن چکا ہے۔

Share it :