روس اور سنگاپور: نصف صدی پر محیط تعلقات، تعاون کے نئے امکانات زیرِ بحث

ماسکو (اشتیاق ہمدانی)

یونیورسٹی آف ورلڈ سیولائزیشنز برائے نامور سیاست دان ولادیمیر ژیرینوفسکی میں تیسرا خارجہ پالیسی عوامی فورم “ڈپلومیٹ بولتا ہے: سنگاپور” شاندار انداز میں منعقد ہوا۔ یہ فورم روس اور سنگاپور کے درمیان ثقافتی، سفارتی اور تعلیمی تعاون کے فروغ کے لیے وقف تھا، جس کا مرکزی موضوع تھا:
“ہم روس کو کس حد تک سمجھتے ہیں، اور روس ہمیں کتنا سمجھتا ہے؟”

فورم کی میزبانی بین الاقوامی تحقیقاتی مرکز برائے سفارت کاری کی ڈائریکٹر **روکسلانا زیگون** نے کی، جنہوں نے روس میں سنگاپور کے سفیرنیو ایک بینگ مارک کے ساتھ تفصیلی مکالمہ کیا۔ اس گفتگو میں نوجوانوں کے باہمی تعاون، تعلیمی تبادلوں اور دونوں ممالک کے تعلقات کے نئے امکانات پر روشنی ڈالی گئی۔

عالمی منظرنامے میں تیزی سے بدلتی ہوئی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں روس اور سنگاپور کے تعلقات ایک منفرد اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات جون 1968 میں قائم ہوئے، اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ تعلقات تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی میدانوں میں فروغ پاتے رہے۔

Advertisement

1996 میں اقتصادی و صنعتی تعاون کا پہلا معاہدہ طے پایا، جب کہ 2009 میں سنگاپور کے بانی لی کوان یو اور روسی صدر دمتری میدویدیف کے تاریخی دوروں نے دونوں ممالک کے تعلقات میں نئی روح پھونکی۔ اسی برس روس-سنگاپور بزنس کونسل (RSBC) قائم ہوئی، جو آج تک یوریشین اکنامک یونین (EAEU) اور آسیان (ASEAN) ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

روسی ثقافتی مرکز کے قیام اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون کے معاہدے ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کا باعث بنے۔ اگرچہ یوکرین جنگ کے بعد سنگاپور نے جزوی طور پر روس کے خلاف پابندیوں کی حمایت کی، تاہم دونوں ممالک کے مابین سفارتی و تعلیمی مکالمہ بدستور جاری ہے۔

اسی موقع پر روکسلانا زیگون نے معروف پاکستانی صحافی اشتیاق ہمدانی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“میں محسوس کرتی ہوں کہ روس اور سنگاپور کے تعلقات اس وقت ایک مخصوص مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ روس اور مغرب کے درمیان کشیدگی اور یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہ تعلقات متاثر ضرور ہوئے ہیں، لیکن خوش قسمتی سے مکالمہ بند نہیں ہوا۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات برقرار ہیں اور یہ تعلقات اب ایک نئی جہت میں داخل ہو رہے ہیں۔”

“موجودہ عالمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آرہی ہیں، جس کے نتیجے میں روس اور سنگاپور کے تعلقات بھی ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ عمل فطری ہے اور مستقبل میں مزید تعاون کے دروازے کھولے گا۔”

روکسلانا زیگون نے میڈیا کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“بدقسمتی سے عالمی میڈیا میں روس کے بارے میں مثبت خبریں کم آتی ہیں، لیکن جب سنگاپور میں روسی ثقافتی مرکز قائم ہوگا تو عوام کے سامنے روس کی اصل تصویر آئے گی۔ یہ منصوبہ دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تعلقات کو نئی سمت دے گا۔”

فورم میں موجود یونیورسٹی کی صحافت کی طالبہ ڈیانا نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
“میں بین الاقوامی امور کی ماہر نہیں، لیکن میرے خیال میں سنگاپور سفارتی سطح پر متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ سنگاپور روس کے ساتھ تعاون کو مزید بڑھائے کیونکہ طب، تعلیم اور تحقیق کے کئی منصوبے ایسے ہیں جنہیں دونوں ممالک مل کر عملی شکل دے سکتے ہیں۔”

ڈیانا نے مزید کہا:
“میڈیا میں روس اور سنگاپور کے تعلقات پر زیادہ بات نہیں ہوتی، لیکن میں امید کرتی ہوں کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون اتنا بڑھے کہ ہمیں میڈیا میں سنگاپور کے حوالے سے مثبت خبریں زیادہ سننے کو ملیں۔ آج کا فورم میرے لیے ایک نیا اور متاثرکن تجربہ تھا، جس نے روس کے بارے میں میرا تصور بدل دیا۔”

اسی موقع پر یونیورسٹی کے لسانیات (Linguistics) کے طالب علم ایلیا وولکوف نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا:
“میں سمجھتا ہوں کہ سنگاپور کے سفیر نے تمام سوالات کے جوابات نہایت دانشمندی سے دیے۔ ان کے خیالات میں گہرائی اور بردباری تھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور سنگاپور کے تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا یہ دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں پھر سے بہار کی نوید سنائی دے رہی ہے۔”

ایلیا وولکوف نے مزید کہا:
“میرے خیال میں روس اور سنگاپور کے درمیان ایک نیا **ثقافتی اور تعلیمی پلیٹ فارم** تشکیل دیا جانا چاہیے تاکہ ہم مستقبل میں باہمی اعتماد اور مفاہمت کے ساتھ ایک دوسرے کے قابلِ اعتماد شراکت دار بن سکیں۔”

آخر میں یہ بات ثابت ہوئی کہ “ڈپلومیٹ بولتا ہے: سنگاپور” فورم نہ صرف روس اور سنگاپور کے تعلقات کے استحکام کی علامت ہے بلکہ نئی نسل میں بین الاقوامی شعور، مکالمے اور سفارتی فہم کے فروغ کا بھی ایک کامیاب قدم ثابت ہوا۔

روس اور سنگاپور نے صرف اقتصادی میدان ہی نہیں بلکہ ثقافتی اور تعلیمی تبادلوں پر بھی خصوصی توجہ دی۔ روسی اکیڈمی آف سائنسز، نانیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی اور دیگر اداروں کے درمیان متعدد یادداشتیں (MoU) دستخط کی گئیں۔ 2006 سے 2015 کے دوران بیس سے زائد معاہدوں کے ذریعے مشترکہ تحقیقی منصوبے شروع کیے گئے اور روسی کلچرل سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔

یوکرین میں روس کی خصوصی فوجی کارروائی کے بعد سنگاپور نے دیگر مغربی ممالک کے ساتھ روس پر مالیاتی و تجارتی پابندیاں عائد کر دیں — یہ قدم اسے آسیان کی واحد ریاست بناتا ہے جس نے ایسا فیصلہ کیا۔ مارچ 2022 میں روس نے بھی سنگاپور کو “غیر دوستانہ ممالک” کی فہرست میں شامل کر لیا۔ ان پابندیوں میں دوہری نوعیت کے سامان کی برآمد پر پابندی، مالی لین دین کی معطلی اور دیگر تجارتی رکاوٹیں شامل تھیں۔ اس کے باوجود، دونوں ممالک کے مابین سفارتی رابطے اور تعلیمی روابط کا سلسلہ جاری ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ یونیورسٹی آف ورلڈ سیولائزیشنز برائے ولادیمیر ژیرینوفسکی دنیا کی واحد تعلیمی ادارہ ہے جس کی بنیاد کسی معروف سیاسی رہنما نے رکھی۔ 1999 میں قائم ہونے والی یہ یونیورسٹی روس کے قلب، ماسکو میں واقع ہے، اور یہاں سے بین الاقوامی تعلقات، قانون، معیشت، نفسیات، اور صحافت جیسے شعبوں میں ہزاروں طلباء فارغ التحصیل ہو چکے ہیں۔ طلباء کو ریاستی دوما سمیت روس کے مختلف سرکاری اداروں میں انٹرن شپ کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔

“ڈپلومیٹ بولتا ہے: سنگاپور” فورم نے ثابت کیا کہ روسی اور سنگاپوری تعلقات صرف سفارتی سطح تک محدود نہیں بلکہ علم، ثقافت اور نوجوان نسل کے ذریعے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ مکالمہ اس بات کا مظہر تھا کہ اختلافات کے باوجود، تعاون اور تفہیم کی راہیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔