روس کا یوکرین تنازع کے پرامن حل پر زور، کیف کی خاموشی تشویشناک قرار
ماسکو (صداۓ روس)
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے جمعرات کے روز ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ روس یوکرین تنازع کا حل اب بھی پرامن سفارتی ذرائع سے چاہتا ہے، لیکن یوکرینی قیادت کی جانب سے مذاکرات میں ہچکچاہٹ کے باعث زمینی حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پیسکوف کا کہنا تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان اس سال استنبول میں دو براہ راست مذاکرات ہو چکے ہیں (مئی اور جون میں)، تاہم تیسرا دور تاحال طے نہیں پایا۔ انہوں نے زور دیا کہ “ہمیں کییف حکومت کی جانب سے کسی اشارے کا انتظار ہے کہ آیا وہ تیسرا مذاکراتی دور چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہم اپنے اہداف کو پرامن، سیاسی و سفارتی طریقے سے حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ جب تک مذاکرات ممکن نہیں ہوتے، “خصوصی فوجی آپریشن جاری رہے گا، اور میدانِ جنگ کے حقائق روز بروز تبدیل ہو رہے ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت پر آیا ہے جب امریکہ نے یوکرین کو اسلحے کی ترسیل دوبارہ شروع کر دی ہے، جسے کچھ عرصے کے لیے روک دیا گیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ بیان میں روسی صدر پوتن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ “واشنگٹن پر بہت سا فضول بوجھ ڈال رہے ہیں”۔ کریملن نے ان ریمارکس کو ٹرمپ کے “عام سخت لہجے” کا حصہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا۔
ٹرمپ کی قیامِ امن کی خواہش کے تناظر میں یوکرین نے بھی ماسکو سے براہ راست مذاکرات پر اصولی آمادگی ظاہر کی ہے۔ یوکرینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان جارجی تیخی نے اس ہفتے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہم نے مذاکرات کی جزوی آمادگی اس لیے بھی ظاہر کی تاکہ مغرب میں ہمیں ٹرمپ کی امن کوششوں کی راہ میں رکاوٹ نہ سمجھا جائے۔ اسی دوران، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کی ملائیشیا میں آسیان فورم کے موقع پر ملاقات ہوئی، جو تقریباً ایک گھنٹے جاری رہی۔ ملاقات کے بعد روبیو نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے امداد میں وقفہ معمولی مسئلہ تھا، لیکن یورپی ممالک کو اب یوکرین کے دفاع میں زیادہ حصہ ڈالنا چاہیے۔
روبیو نے کہا یوکرین کو سب سے زیادہ ضرورت پیٹریاٹ ائیر ڈیفنس بیٹریز کی ہے۔ یہ نظام یورپ کے کئی ممالک میں دستیاب ہیں، مگر کوئی انہیں دینا نہیں چاہتا۔ اگر واقعی یوکرین کی سلامتی اہم ہے، تو غیر استعمال شدہ دفاعی سازوسامان فوری طور پر فراہم کیا جانا چاہیے۔ روس کا حالیہ مؤقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ باضابطہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے تیار ہے، مگر کییف کی خاموشی اور مغربی ہتھیاروں کی مسلسل فراہمی میدانِ جنگ کو مزید شدت کی طرف لے جا رہی ہے — اور ممکنہ امن موقع ضائع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔