روس نے امریکا کے ساتھ جوہری فضلے کے معاہدے کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا

Russia's ballistic missile Russia's ballistic missile

روس نے امریکا کے ساتھ جوہری فضلے کے معاہدے کو باضابطہ طور پر ختم کر دیا

ماسکو (صداۓ روس)
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے ایک قانون پر دستخط کر دیے ہیں جس کے تحت امریکا کے ساتھ فوجی درجہ کے زائد پلوٹونیم کی تلفی سے متعلق معاہدہ باضابطہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ سال 2000 میں طے پایا تھا، تاہم روس نے 2016 میں اسے امریکا کی معاندانہ پالیسیوں کے باعث معطل کر دیا تھا۔ روس کی پارلیمان کے زیریں ایوان نے اس معاہدے کے خاتمے کا بل رواں ماہ کے اوائل میں منظور کیا تھا، جب کہ ایوانِ بالا نے گذشتہ بدھ کو اس کی توثیق کی۔ صدر پوتن کے دستخط کے بعد قانون پیر کے روز نافذ العمل ہو گیا۔ یہ معاہدہ ستمبر 2000 میں طے پایا تھا، جس کے تحت دونوں ممالک نے 34 ٹن فوجی درجہ کے پلوٹونیم کو تلف کرنے پر اتفاق کیا تھا، جو ان کے فوجی پروگراموں کے لیے غیر ضروری قرار دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2016 میں روس نے معاہدے کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کے اقدامات — بالخصوص پابندیاں اور نیٹو کی مشرق کی جانب توسیع — دشمنانہ ہیں۔ ماسکو نے اس وقت کہا تھا کہ اگر واشنگٹن اپنے رویے میں تبدیلی لائے تو معاہدے کو بحال کیا جا سکتا ہے۔

نئے قانون کے ساتھ منسلک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’حالات میں بنیادی تبدیلی‘‘ واقع ہو چکی ہے اور گزشتہ برسوں میں امریکا کی ’’ضدِ روس پالیسیوں‘‘ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
روسی نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف نے رواں ماہ پارلیمان میں بتایا کہ امریکا پلوٹونیم کے تلفی کے طریقۂ کار میں تبدیلی کا خواہاں تھا، جس پر ماسکو نے اعتراض کیا کیونکہ اس سے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ تابکار مواد دوبارہ استعمال کے لیے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں واشنگٹن نے 1987 کے درمیانی فاصلے کے میزائلوں کے معاہدے (INF) اور 1992 کے اوپن اسکائیز معاہدے سے بھی علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ گزشتہ ماہ صدر پوتن نے افسوس ظاہر کیا تھا کہ ’’قدم بہ قدم سوویت۔امریکی اور روس۔امریکی جوہری ہتھیاروں کے معاہدوں کا نظام تقریباً مکمل طور پر ختم ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ روس اب بھی نیو اسٹارٹ معاہدے — جو امریکا اور روس کے درمیان واحد فعال جوہری ہتھیار کنٹرول معاہدہ ہے — کی مرکزی حدود کی پابندی 5 فروری 2026 میں اس کی مدتِ اختتام کے بعد ایک سال تک جاری رکھنے کو تیار ہے۔ یہ معاہدہ 2011 سے نافذ العمل ہے اور اس کے تحت دونوں ممالک 1,550 سے زیادہ تعینات شدہ اسٹریٹیجک جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتے۔ صدر ٹرمپ نے اکتوبر کے اوائل میں پوتن کی تجویز کو ’’اچھی پیشکش‘‘ قرار دیتے ہوئے سراہا تھا

Advertisement