روس کا جوہری صلاحیت رکھنے والے’پوسیڈون’ آبدوزی ڈرون کا کامیاب تجربہ
ماسکو (صداۓ روس)
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اعلان کیا ہے کہ روسی فوج نے جدید ترین نیوکلیئر صلاحیت رکھنے والا آبدوزی ڈرون ‘پوسیڈون’ کامیابی کے ساتھ آزما لیا ہے۔ پوتن نے یہ بات بدھ کے روز ماسکو میں ایک فوجی ہسپتال کے دورے کے موقع پر بتائی اور کہا کہ اس نظام کے تجربات منگل کو کیے گئے۔ صدر نے کہا کہ پوسیڈون کی رفتار اور گہرائی کے معاملے میں دنیا میں اس کا کوئی ہم منصب موجود نہیں اور “قریب مستقبل میں بھی ایسا کوئی سسٹم دکھائی نہیں دیتا۔” انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس وقت پوسیڈون کو روکنے کے لیے “کوئی طریقہ کار موجود نہیں”۔ پوتن نے مزید بتایا کہ اس بار پہلی بار آبدوز سے پوسیڈون کو بوسٹر انجن کے ذریعے لانچ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے نیوکلیئر پاور یونٹ کو بھی اسٹارٹ کیا گیا، جس نے ایک مخصوص مدت کے لیے ڈرون کو توانائی فراہم کی — صدر کے الفاظ میں یہ ایک “بڑی کامیابی” ہے۔ سرکاری بیانات کے مطابق پوسیڈون ایک گہرا سمندری، غیر انسانی ڈرون ہے جو ایک جوہری توانائی یونٹ سے چلتا ہے، اس کی لمبائی اندازاً 20 میٹر اور وزن تقریباً 100 ٹن بتایا جاتا ہے۔ میڈیا رپورٹس میں اسے چند سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی حدود تک رفتار، اور ایک ہزار میٹر سے زائد کی گہرائی میں غوطہ زن ہونے کی صلاحیت رکھنے والا ڈرون قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ یہ انتہائی کم رفتار پر بھی چل سکتا ہے جس سے روایتی سمندری نگرانی نظام اسے پکڑنے سے قاصر رہ سکتے ہیں۔
پوتن نے پوسیڈون کی صلاحیت کا موازنہ روس کے ایک دوسرے بڑے منصوبے سرمات بیلسٹک میزائل سے بھی کیا، اور کہا کہ پوسیڈون کی بعض خصوصیات سرماٹ سے بھی کہیں آگے ہیں۔ پوسیڈون کو طویل فاصلے طے کرنے، ساحلی شہروں پر براہِ راست حملہ کرنے یا انتہائی خطرناک صورتِ حال میں زبردست سونامی نما لہریں پیدا کرنے کے لیے بھی ایک ممکنہ ہتھیار قرار دیا جاتا رہا ہے۔ یہ منصوبہ پہلی بار 2018 میں عوامی طور پر منظرِ عام پر آیا تھا اور تب سے اسے روسی اسٹریٹیجک ہتھیاروں کے اگلے درجے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ پوتن نے تأکید کی کہ اگرچہ کلیدی تجربات کامیاب ہوئے ہیں، مگر اسے فعال فوجی ڈیوٹی پر لگانے سے پہلے مزید تکنیکی اور انفراسٹرکچر کے کام درکار ہوں گے۔