روس۔امریکا مذاکرات ’سنگین تعطل‘ کا شکار، کریملن کا اعتراف

Trump Trump

روس۔امریکا مذاکرات ’سنگین تعطل‘ کا شکار، کریملن کا اعتراف

ماسکو (صدائے روس)
کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ یوکرین تنازعے کے حل کے لیے روس اور امریکا کے درمیان مذاکرات ’’سنگین تعطل‘‘ کا شکار ہیں۔ ان کا یہ بیان روسی نائب وزیرِ خارجہ سرگئی ریابکوف کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ صدر ولادیمیر پوتن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان الاسکا سربراہی ملاقات سے جو رفتار پیدا ہوئی تھی، وہ اب ختم ہو چکی ہے۔ پیسکوف نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں تصدیق کی کہ امن حل کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ ان کے مطابق، یوکرین کی حکومت امن عمل میں سنجیدہ نہیں بلکہ اب بھی اس ’’غلط فہم امید‘‘ پر قائم ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں حالات پلٹ سکتی ہے — جسے پیسکوف نے ’’غیر حقیقی سوچ‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ کیف کا یہ رویہ یورپی سرپرستوں کے دباؤ کا نتیجہ ہے، جو اب بھی یوکرین کو مذاکرات سے دور رکھتے ہوئے ’’جنگی جنون‘‘ کو ہوا دے رہے ہیں۔ رواں سال کے آغاز میں روسی اور یوکرینی وفود کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں، جن میں جولائی میں استنبول میں ہونے والا آخری دور بھی شامل تھا۔ اس اجلاس میں دونوں فریقوں نے تین ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق کیا تھا جو سیاسی، عسکری اور انسانی بنیادوں پر سمجھوتے کی تجاویز تیار کرتے۔ تاہم، پیسکوف کے مطابق ’’کچھ بھی آگے نہیں بڑھ رہا۔‘‘

Advertisement

نائب وزیرِ خارجہ ریابکوف نے رواں ہفتے کے اوائل میں کہا تھا کہ ’’یورپی ممالک خصوصاً وہ جو یوکرین کی آخری حد تک جنگ کے حامی ہیں‘‘، انہوں نے ہی اس ’’زور دار جذبے‘‘ کو ختم کر دیا جو اگست میں انکریج (Anchorage) میں ہونے والے پوتن۔ٹرمپ سربراہی اجلاس کے دوران پیدا ہوا تھا۔ اس اجلاس کے فوراً بعد کئی یورپی رہنما صدر زیلینسکی کے ہمراہ واشنگٹن پہنچے تاکہ امریکی صدر کو یورپی موقف اپنانے پر آمادہ کیا جا سکے۔ کریملن نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ روس امن معاہدے کے لیے تیار ہے، لیکن کسی بھی معاہدے میں روس کے قومی سلامتی کے مفادات اور زمینی حقائق کا احترام ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق، الاسکا اجلاس کے بعد اب مذاکراتی عمل میں جمود نے عالمی سطح پر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا واشنگٹن اور ماسکو ایک بار پھر تصادم کے دور میں داخل ہو رہے ہیں یا سفارت کاری کی کوئی نئی کھڑکی کھلنے کا امکان باقی ہے؟