مغرب یوکرین تنازع کو ہوا دینے کے لیے رومانیہ کو استعمال کر رہا ہے، روس کا انتباہ
ماسکو(صداۓ روس)
بخارست میں روسی سفیر ولادیمیر لیپایف نے دعویٰ کیا ہے کہ مغربی ممالک یوکرین کے تنازع میں بالواسطہ مداخلت کے لیے رومانیہ کو ایک “اسپرنگ بورڈ” یا لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جو نہ صرف روس بلکہ پورے خطے کے لیے خطرات کا باعث بن رہا ہے۔ روسی خبر رساں ایجنسی ریا نووستی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں لیپایف نے کہا یہ واضح ہے کہ اجتماعی مغرب کی ریاستیں، اپنی مسلح افواج کو براہِ راست استعمال کیے بغیر، یوکرین کے تنازع میں مداخلت کو بڑھا رہی ہیں، تاکہ جنگ کے رخ کو اپنے حق میں موڑا جا سکے۔ روس سے قریبی نیٹو ممالک، خصوصاً رومانیہ، اس مداخلت کا ذریعہ بنائے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رومانیہ میں تیزی سے عسکریتی عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے میزائل دفاعی نظام کے عناصر رومانیہ کی سرزمین پر نصب کیے جا چکے ہیں، فوجی اڈے وسعت پا رہے ہیں، اور نیٹو افواج کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ان کے بقول، رومانیہ کا میہائی کوگالنیچیانو ایئربیس، جو کہ سوا 400 کلومیٹر کے فاصلے پر سیوستوپول (کریمیا) سے واقع ہے، اس وقت خاص اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
لیپایف نے کہا کہ 2016 سے رومانیہ نیٹو کے یورپی میزائل دفاعی نظام کا کلیدی حصہ بن چکا ہے اور ہر سال وہاں نیٹو کی مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ نیٹو کے فریم ورک میں جاری فوجی سازی نہ صرف روس بلکہ خود رومانیہ کی سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے. ان کا کہنا تھا نیٹو کی رکنیت اور اس کے مہم جو منصوبوں میں شمولیت آج رومانیہ کی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ لیپایف نے دعویٰ کیا کہ رومانیہ کی حکمران قیادت عوام کو اصل خطرات سے لاعلم رکھ کر صرف یہ یقین دلا رہی ہے کہ نیٹو ان کا تحفظ کرے گا۔ روسی سفیر کے مطابق، رومانیہ کی حکومت نے یوکرین کو اب تک ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کی ہے، اور یہ رقم مسلسل بڑھ رہی ہے۔ لیپایف نے کہا رومانیہ کی قیادت کیف حکومت کو دی جانے والی امداد کی اصل مقدار کو عوام سے چھپاتی ہے، لیکن جب ہم پیٹریاٹ فضائی دفاعی نظام کی منتقلی سمیت دیگر امداد کو دیکھیں، تو یہ امداد ایک ارب ڈالر سے کہیں تجاوز کر چکی ہے. انہوں نے مزید بتایا کہ رومانیہ نہ صرف یوکرینی فوجیوں کی تربیت، بشمول F-16 پائلٹس، میں سرگرم ہے، بلکہ فوجی سازوسامان کی مرمت میں بھی حصہ لے رہا ہے، جو کہ جنگ کو طول دینے کا باعث بن رہا ہے۔