روسی افواج کا یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ، یوکرینی دفاعی صنعت تباہ
ماسکو (صداۓ روس)
روسی وزارت دفاع کے مطابق، روسی افواج نے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب یوکرین کے دفاعی صنعتی مراکز اور تیل صاف کرنے والی تنصیبات پر بڑے پیمانے پر میزائل اور ڈرون حملے کیے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی طویل فاصلے تک مار کرنے والے فضائی، بحری اور زمینی ہتھیاروں سے کی گئی، جن میں “کِنزال” نامی ایرو بیلسٹک ہائپرسونک میزائل سسٹم اور خودکار ڈرونز بھی شامل تھے۔ وزارت دفاع نے مزید کہا کہ “حملے کے تمام اہداف مکمل طور پر حاصل کیے گئے، اور تمام مقررہ مقامات کو کامیابی سے نشانہ بنایا گیا۔
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ٹیلیگرام پیغام میں اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ روس نے 477 دھماکہ خیز مواد سے لیس ڈرونز اور 60 مختلف اقسام کے میزائل داغے۔ انہوں نے مغربی ممالک سے ایک بار پھر یوکرین کو مزید فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے کی اپیل کی۔ زیلنسکی نے انکشاف کیا کہ روسی حملے کے دوران یوکرین کو مغرب سے فراہم کردہ ایک ایف-16 لڑاکا طیارہ بھی تباہ ہو گیا، جس کے پائلٹ کی جان چلی گئی۔
ادھر یوکرینی رکنِ پارلیمنٹ مارِیانا بیزوگلیا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” پر الزام عائد کیا کہ فوجی قیادت نے مؤثر اینٹی ڈرون حکمتِ عملی وضع نہ کر کے پائلٹس کی “جان لیوا غفلت” سے ہلاکت کا سبب بنی ہے۔ یوکرینی فوج کے مطابق، حملے کے دوران 20 سے زائد روسی میزائل اور 40 ڈرون یوکرین کے فضائی دفاع کو چکما دے کر ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ مغربی یوکرین کے شہر دروہوبچ میں عسکری انتظامیہ کے سربراہ اسٹیپن کولنیاک نے فیس بک پر بتایا کہ حملے کے نتیجے میں ایک صنعتی تنصیب میں آگ بھڑک اٹھی۔ تاہم، مقامی حکام کے مطابق اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، لیکن اہم انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا۔ یوکرین کے پولٹاوا ریجن میں واقع شہر کرمنچک میں بھی ایک صنعتی مرکز پر حملے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ مقامی میڈیا نے اشارہ دیا ہے کہ دروہوبچ اور کرمنچک دونوں شہروں میں تیل صاف کرنے والے کارخانے موجود ہیں، اور امکان ہے کہ یہی تنصیبات روسی حملے کا اصل ہدف تھیں۔
سوشل میڈیا پر متعدد صارفین نے روسی حملوں اور ان کے بعد کے مناظر کی ویڈیوز شیئر کی ہیں، جن میں متعدد علاقوں میں دھماکوں اور آگ لگنے کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اگرچہ یوکرینی حکام نے متاثرہ تنصیبات کی نوعیت یا نقصان کی مکمل تفصیلات فراہم نہیں کیں، تاہم تجزیہ کار اسے 2022 کے بعد سے روس کی جانب سے کیا گیا سب سے بڑا حملہ قرار دے رہے ہیں۔