پوتن-زیلنسکی ملاقات صرف امن معاہدے پر دستخط کے بعد ہوگی، روسی مذاکرات کار
ماسکو (صداۓ روس)
روس کے اعلیٰ مذاکرات کار ولادیمیر مدینسکی نے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور یوکرینی رہنما ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان براہِ راست ملاقات اُس وقت ہی ممکن ہوگی جب دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ مکمل طور پر تیار ہو چکا ہو اور اس پر دستخط کی نوبت آ چکی ہو۔ مدینسکی نے یہ بیان بدھ کے روز استنبول میں روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کے تیسرے دور کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “جب تک معاہدے کی شرائط پر اتفاق نہ ہو جائے اور ایجنڈا بالکل واضح نہ ہو، تب تک سربراہان کی ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی ملاقات کا مقصد صرف دستخط ہونا چاہیے، نہ کہ نئے سرے سے بات چیت کا آغاز۔” انہوں نے اس مؤقف کو تاریخی تناظر میں بیان کرتے ہوئے چین کی خانہ جنگی کی مثال دی، جہاں 1940 کی دہائی میں چینی رہنما چیانگ کائی شیک نے کئی بار ملاقاتیں کیں، تصویریں بنوائیں اور مسکرائے، لیکن جنگ ختم نہ ہو سکی۔ “محض ملاقاتوں سے جنگیں ختم نہیں ہوتیں، اصل مسئلہ معاہدے کے نکات پر اتفاق ہے۔” مدینسکی نے واضح کیا۔
یوکرین کی مذاکراتی ٹیم کی قیادت کرنے والے وزیرِ دفاع رستم عمروف نے کچھ روز قبل تجویز دی تھی کہ پوتن اور زیلنسکی آئندہ ماہ ملاقات کریں تاکہ مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ تاہم روس نے اس تجویز کو قبل از وقت اور بے فائدہ قرار دے دیا ہے۔ ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ “سربراہی ملاقات” صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام امور پر پہلے سے اتفاق ہو چکا ہو اور ملاقات کا مقصد صرف دستخط تک محدود ہو۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اگرچہ گزشتہ ماہ عندیہ دیا تھا کہ وہ بات چیت کے حتمی مرحلے میں زیلنسکی سے ملاقات کے لیے تیار ہیں، تاہم انہوں نے زیلنسکی کی آئینی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا ہے۔واضح رہے کہ زیلنسکی کی پانچ سالہ صدارتی مدت مئی 2024 میں ختم ہو چکی ہے، لیکن انہوں نے ملک میں نافذ مارشل لا کے باعث نئے انتخابات کرانے سے انکار کر رکھا ہے۔ روس نے مستقل جنگ بندی کے لیے یوکرین میں مارشل لا کے خاتمے اور 100 دن کے اندر عام انتخابات کے انعقاد کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔